کراچی کیوں بدل گیا۔۔۔؟

غلام مصطفیٰ

میں کراچی کا قدیم باشندہ ہوں، گزشتہ 4 دہائیوں سے شہر کے حالات کو بہت قریب سے دیکھتا رہاہ وں۔ ان کا باریک بینی سے جائزہ بھی لیتا رہتا ہوں۔ بچپن میں ہم بڑے بڑے نامی گرامی ڈاکوﺅں کی کہانیاں سنا کرتے تھے اور کبھی کبھار سن کر ہم پہ خوف بھی طاری ہوجایا کرتا تھا کہ کہیں وہ ڈاکو ابھی یہاں نہ آجائیں، پھر آہستہ آہستہ زمانے نے کروٹ لی اور جو لوگ آپس میں بھائیوں کی طرح رہ رہے تھے وہ ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ سیاسی، معاشی اور فرقہ وارانہ اختلاف اس قدر بڑھ گئے کہ لوگوں نے اس بنیاد پر ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردیااور پھر دیکھتے ہی دیکھتے حالات اس قدر خراب ہوگئے حکومت کو کرفیو لگانا پڑ گیا۔
1992 میں کراچی آپریشن ہوا، انسانوں کے درمیان لسانی اور فرقہ پرستی کی بنیاد پر نفرتوں کو پروان چڑھانے والے لوگوں کو اپنی آخرت کی بھی کوئی فکرنہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایاہے لیکن اگر یہی انسان ایک دوسرے کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرنے لگ جائیں تو وہ انسان کہلانے کے لائق نہیں رہتے۔
افسوس ہم سب ایک ملک، ایک صوبے، ایک شہر، ایک گلی اور ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی ایک قوم نہیں بن سکے، ہم سے بعد میں آزادی حاصل کرنے والے ملکوں نے قابل قدر ترقی کی ہے، اس ترقی میں اہم ترین کردار ان کے آپس کے اتحاد واتفاق کا ہے۔
کراچی وہ شہر تھا جہاں رات میں دن کا گمان ہوا کرتا تھا، رات میں سڑکوں کو دھویا جاتا تھا، شہر روشنیوں کا ایسا منظر پیش کررہا ہوتا تھا جس کے باعث ہم اسے عروس البلاد کہا کرتے تھے، لیکن نہ جانے اس روشنیوں، روزگار کے مرکز کو کس کی نظر لگ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ اندھیروں اور سناٹوں کی نذر ہوگیا، جس شہر میں لوگ پوری پوری رات جہاں دل چاہے گھومتے پھرتے تھے اسی شہر میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہاں کے باسی دن کے وقت اپنے گھروں سے کام کاج کے لیے نکلتے توانہیں یہ امید بھی نہیں ہوتی تھی کہ وہ زندہ سلامت گھر لوٹ سکیں گے بھی یا نہیں۔ موت برحق ہے لیکن گھر سے نکلتے وقت اور آفس یا کام کاج کی جگہ سے واپسی گھر آتے ہوئے بے یقینی کی کیفیت طاری رہنا اس دور کامعمول بن گیا تھا۔
وہ کتنا اذیت ناک دور تھا کہ شام ہوتے ہی ہر طرف خوف چھاجاتاتھا، کسی زمانے میں کراچی کی سڑکوں پر لوگ سوجایاکرتے تھے پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لوگ اپنے گھروں میں خوف کے باعث سو نہیں سکتے تھے۔آج اگر ہم اُس وقت کا تصور بھی کرتے ہیں تو جسم پر عجیب سی سرسری سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ پرانی یادوں میں کھو جانے سے خوشی اور غم دونوں ہی ملتے ہیں لیکن خوشی کے لمحات یاد کرنے سے جینے کی ایک نئی امید پیداہوجاتی ہے، گزرے وقت کو یاد کرنے سے انسان کچھ وقت کے لیے دکھی ضرور ہوتا لیکن ہر دکھ کے بعد خوشی بھی آتی ہے۔ جب انسان ماضی کی حسین یادوں میں گم ہوجاتاہے تو اسے وہ سکون میسر آتا ہے جس کے باعث اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے۔ غم ہلکا ہونے لگتاہے کچھ انسان انہی یادوں کے سہارے زندگی گزار رہے ہیں۔ کیونکہ امید پر دنیا قائم ہے۔
حال ہی میں تعینات ہونے والے نئے کراچی پولیس چیف جاوید عالم اوڈھو نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ کراچی میں موجودہ سب سے بڑا چیلنج اسٹریٹ کرائمز ہے جب کہ دوسرا بڑا مسئلہ شہریوں کی موٹرسائیکلیں چوری ہونا اور چھیننا ہے، کراچی پولیس چیف کا کہنا تھا کہ شہر کا سماجی اورثقافتی ماحول تبدیل ہو گیا ہے، بہت سے نئے لوگ آگئے ہیں، اب یہ ایک نیا چیلنج ہے، کراچی آپریشن میں خدمات انجام دینے والے جاوید اوڈھو کا کہنا تھا کہ پہلے ٹارگٹ کلنگ ضرور تھی لیکن قتل کی شرح کم تھی،شہر میں قریباً 60ہزار پولیس کی نفری ہے جو بٹی ہوئی ہے، منشیات ڈیلرز،غیر قانونی اسلحہ ڈیلرز، لینڈ مافیا، واٹر مافیا اس شہر کے بہت سے مسائل ہیں، جاوید اوڈھو نے کہا کہ منشیات کا مسئلہ صرف پولیس حل نہیں کرسکتی اس میں سب سے اہم کردار اہل خانہ کا ہے، لینڈ مافیا کا تعلق زیادہ تر ریونیو ریکارڈ سے ہے تاہم پولیس میں جو ملوث ہے اس کیخلاف کارروائی ہوگی۔ جاوید اوڈھو نے کہا کہ منشیات خاص طور پر آئس سے نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے اور یہ سنگین مسئلہ ہے، کراچی پولیس چیف نے کہا کہ کراچی کا سماجی اورثقافتی ماحول تبدیل ہو گیا ہے اور یہاں بہت سے نئے لوگ آگئے ہیں،آنے والے یہ افراد شہری آباد کاری کے مختلف مراحل میں ہیں اور ان کی سوچ اور طریقہ کار ان کے آبائی علاقوں کی سوچ بیان کرتا ہے۔ جاوید اوڈھو نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں سے، اندرون بلوچستان اور اندرون سندھ سے اور جنوبی پنجاب سے لوگ کراچی آئے ہیں، اب یہ ایک نیا چیلنج ہے، کراچی آپریشن سے پہلے ٹارگٹ کلنگ ضرور تھی لیکن قتل کی شرح کم تھی اس کی بڑی وجہ غیر قانونی ہتھیاروں کا آنا اور معاشرے میں تشدد اور رہن سہن کا قبول کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی پولیسنگ جیسے ناکے، پٹرولنگ سمیت پولیس کو نظر آنے والے اقدامات کرنا ہیں، پولیس کے انٹیلی جنس سسٹم کو بہتر بنانا ہے، شہر میں بہت سے گینگز ہیں اور عادی جرائم پیشہ افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے، ہماری کوتاہیاں بھی ہیں لیکن انہیں ضمانت مل جاتی ہے، جاوید اوڈھونے کہا کہ منشیات ڈیلرز، غیر قانونی اسلحہ ڈیلرز، لینڈ مافیا، واٹر مافیا اس شہر کے بہت سے مسائل ہیں اور جب تک ان مافیاز کا سدباب نہیں ہوگا، شہر میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔
کراچی پولیس چیف جاوید عالم اوڈھو کا کہنا درست ہے۔ امن وامان، چوری، ڈکیتی، قتل وغارت گری کی وارداتوں کی روک تھام کے لیے راست فیصلے ناگزیر ہیں۔ 3کروڑ کی آبادی والے شہرقائد میں 60ہزار پولیس اہلکاروں کا ہونا آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ پولیس کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پولیس کو سہولتیں فراہم کرکے اس محکمے میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ شاید کراچی اس لیے بدل گیا ہے یہاں کی آبادی میں غیر مقامی افراد کی یلغار ہے ، مقامی اکثریت ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے، کراچی کے قدیم رہائشی آج بھی شہر کو روشنیوں، پُرامن اور کاروباری مرکز بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔