پیپلز پارٹی55 برس کی ہوگئی

غلام مصطفٰی

ہر سال پاکستان پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کی تقریبات کا انعقاد30 نومبر کو دنیا بھر کی طرح پاکستان بشمول آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان کے تمام صوبائی، ڈویژنل،ضلعی ہیڈکوارٹرز میں کیاجاتاہے۔ پیپلز پارٹی میں شامل بے مثال جیالے جمہوریت کی بحالی کے لیے کوشاں رہتے ہیں اوراسی جدوجہد کے دوران انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، لیکن ان کے حوصلے ہمیشہ بلند رہے۔ صدر ایوب سے شہید ذوالفقار بھٹو کے اختلافات کے بعد بھٹو نے اپنی سیاسی جماعت (پاکستان پیپلزپارٹی) بنانے کا فیصلہ کیا۔ 30 نومبر 1967کو لاہور میں ایک کنونشن منعقد کیا گیا، جس میں جمہوریت پسند رہنماؤں سمیت ممتازدانشور ڈاکٹر مبشر حسن بھی شریک تھے اور ڈاکٹرمبشر حسن کی رہائش گاہ پر ہی ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کرنے والے بہت سے جمہوریت پسند رہنماؤں نے نو تشکیل شدہ پارٹی(پاکستان پیپلزپارٹی)کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کو چیئرمین منتخب کیا، جس کے بعد پیپلزپارٹی نے اپنامنشور پیش کیا، جس کے مطابق ”اسلام ہمارا مذہب، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت ہوگا۔“اس منشور کو بنگالی کمیونسٹ جے اے رحیم نے تحریر کیا تھا اور اسے 9 دسمبر 1967 کو شائع کیا گیا۔ پارٹی کا بنیادی مقصد سب کے لیے یکساں مواقع پیدا کرنا اورلوگوں کو استحصال سے بچانا، طبقاتی تفریق کی رکاوٹوں کو دُور کرنا، معاشی اور سماجی انصاف قائم کرنا، بھٹو کے نزدیک سوشلزم ہی جمہوریت کا اعلیٰ ترین اظہار تھا۔
1968 میں ایوب حکومت کے دوران پورے ملک میں مظاہرے پھوٹ پڑے، جس کی بڑی وجہ بے روزگاری اور معاشی تنگی تھی، جس کی وجہ سے 1968 کی تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ اسی دوران نیشنل عوامی پارٹی کے اندر نظریاتی اختلافات ابھر کر سامنے آگئے، جس کی وجہ سے سوویت اور چین کے حامی دھڑوں کے درمیان ایک بڑی تقسیم ہو گئی۔ ولی خان کی قیادت میں سوویت نواز دھڑے نے اقتدار کے لیے پارلیمانی راستہ تجویز کیا جبکہ مولانا بھاشانی کی قیادت میں چین نواز دھڑے نے ایوب حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے کسان انقلاب کی بات کی۔ نیشنل عوامی پارٹی کے انتشار سے پیدا ہوا خلا ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے پورا کیا۔ذوالفقار علی بھٹو عوامی تحریک کے مزاج کو محسوس کرنے میں کامیاب رہے، یہی وجہ تھی کہ پیپلز پارٹی کا پروگرام عوام کے مزاج، امنگوں اور جذبات کے ساتھ کلک کرگیا، جس کے بعد پیپلز پارٹی قریباً راتوں رات پاکستان کی تاریخ میں عوام کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔
پیپلز پارٹی مختلف مواقع پر اقتدار میں رہی، جن میں (1970، 1977، 1988، 1993 اور 2008) شامل ہے۔ اب تک پیپلز پارٹی کے کل چار وزرائے اعظم بن چکے ہیں۔پیپلز پارٹی 1970 کی دہائی میں پاکستان کی سیاست پر حاوی رہی، ضیاء الحق دور کے دوران اسے عارضی زوال کا سامنا کرنا پڑا۔ 1988 میں ملک میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔پارٹی نے 1999 سے 2008 تک پرویز مشرف حکومت میں اپوزیشن کے طور پر کام کیا۔ پیپلزپارٹی کو 2013 کے عام انتخابات میں شکست ہوئی جبکہ اس نے سندھ میں اپنی حکومت برقرار رکھی۔ 2018 کے عام انتخابات میں تاریخ میں پہلی بار،پیپلزپارٹی نہ تو حکومت بنا سکی اور نہ ہی اپوزیشن کی بڑی جماعت بن سکی لیکن سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوگئی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی و قائد شہیدذوالفقار علی بھٹو اور شہیدبے نظیر بھٹو صاحبہ کی ملک کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں‘ بھٹوصاحب نے پاکستان کو ایٹم بم بنانے اور ملک کادفاع ناقابل تسخیر بنانے کی خاطر نہ صرف بڑی محنت کی، بلکہ ذاتی دلچسپی کامظاہرہ بھی کیا۔ بھٹو نے پاکستان کو متفقہ طور پر 1973 آئین دیا۔ جب بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تو اس کے جواب میں بھٹو صاحب نے کہاتھاکہ ”ہم گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے“ اور پھرانہوں نے ایٹم بناکر بھی دکھایا۔ ایٹم بم بنانا کوئی آسان کام نہیں تھا اس کام کے لیے بھٹو نے امریکہ جیسے سپرپاور ملک سے ٹکر لی تھی جو واقعی جان جوکھوں کا کام تھا۔ جس کی پاداش میں بھٹو صاحب اور ان کی بیٹی کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ بھٹو صاحب کو ملک کا دفاع ناقابل تسخیر بنانے کی سزا دی گئی‘پھر اس کے بعد ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ سیاست میں آئیں اور وہ دومرتبہ ملک کی وزیراعظم بھی بنیں۔بے نظیر بھٹو صاحبہ جب پہلی باروزیراعظم بنیں تو ان پر پاکستان کے جوہری ٹیکنالوجی صلاحیت کے بارے میں جاننے کے لیے غیر معمولی غیر ملکی دباؤ تھا، لیکن اس کے باوجود انہوں نے کبھی بھی پاکستان کے ایٹمی پلان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا، انہوں نے ہمیشہ قومی راز اور ملکی مفاد کو مقدم رکھا۔
اگر ملکی خدمت کی بات کی جائے تو پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا اورایک مشترکہ آئین دینا سب سے بڑی خدمت ہے، کیونکہ ملک ہے تو ہم ہیں،اگرخدانخواستہ ہم ایٹمی قوت نہ بن پاتے تو بھارت کب کا ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کردیتا، پاکستان آج جوہری طاقت ہونے ہی وجہ سے کافی حد تک محفوظ ہے۔ میں موجودہ پیپلزپارٹی قیادت سے کہوں گا وہ بھی بے شہید نظیر بھٹو اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کے وژن کو سامنے رکھتے ہوئے کام کریں، کیونکہ موجودہ پیپلزپارٹی کی پالیسیاں شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو صاحبہ نہیں چلارہیں بلکہ اس وقت پیپلزپارٹی کی پالیسی آصف علی زرداری چلارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ کارکردگی زیادہ متاثر کن نہیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کافی عرصے سے قائم ہے، اس کے باوجود سب سے زیادہ مسائل بھی بالخصوص کراچی میں ہیں۔ توقع ہے کہ سندھ حکومت اندرون سندھ بالخصوص کراچی کے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے سب کو ساتھ ملاکر کام کرے گی، تاکہ سندھ بالخصوص کراچی کودوبارہ سے روشنیوں کا شہر بنایاجاسکے،یہاں خوشحالی آئے، پینے کا صاف دستیاب ہو، بجلی، گیس،ٹرانسپورٹ کابہترین نظام، ہر شخص کے پاس ذاتی مکان ہو، کوئی بھوکا نہ سوئے۔غربت، مہنگائی اوربے روزگاری کا خاتمہ ہوسکے، غرض سندھ میں ہرقسم کی بنیادی سہولتیں دستیاب ہوں، تاکہ ہم فخر کے ساتھ پوری دنیا کو بتاسکیں کہ موجودہ پیپلزپارٹی نے شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو صاحبہ کے وژن کو مکمل کرلیاہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔