گورنر کا حکم معطل، پرویز الٰہی اور پنجاب کابینہ بحال

لاہور: پرویزالٰہی نے عہدے پر بحال کیے جانے پر لاہور ہائی کورٹ کو اسمبلی نہ توڑنے کی یقین دہانی کرادی، جس کے بعد عدالت نے گورنر کا حکم معطل کرتے ہوئے پرویز الٰہی اور پنجاب کابینہ کو بحال کردیا۔
گورنر کی جانب وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت دوسرے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو پرویز الٰہی نے بحال کیے جانے پر اسمبلی نہ توڑنے کی یقین دہانی کرائی۔
پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے ان کی انڈر ٹیکنگ پڑھ کر سنائی اور کہا کہ اگر وزارت اعلیٰ پر بحال کیا تو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس نہیں دوں گا۔
گورنر کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ایک معاملہ دیکھنے کی ضرورت ہے، یہ اعتماد کا ووٹ لے لیں ہم اپنا نوٹیفکیشن واپس لینے کو تیار ہیں، یہ اگلے پیر کو اعتماد کا ووٹ لے لیں یا یہ سات دن تک اعتماد کا ووٹ لے لیں۔
اس پر عدالت نے حکم دیا کہ آپ خود بھی اعتماد کا ووٹ لے لیں۔
عدالت نے گورنر کا حکم معطل کرتے ہوئے پرویز الٰہی اور پنجاب کابینہ کو بحال کر دیا۔ ہائی کورٹ نے پرویز الٰہی کی اسمبلی نہ توڑنے کی انڈر ٹیکنگ پر انہیں بحال کیا اور تمام فریقین کو 11 جنوری کے لیے نوٹس جاری کردیے۔
پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر کا کہنا ہے کہ عدالت نے اجازت دی ہے کہ اگلی سماعت تک آپ اعتماد کا ووٹ لینا چاہیں تو لے سکتے ہیں۔
قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ میں پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
دوران سماعت جسٹس عابد عزیز شیخ نے سوال کیا کہ اگر ہم ابھی وزیراعلیٰ کو بحال کردیں تو کیا آپ اسمبلی توڑدیں گے؟ یہ معاملہ تو منظور وٹو کیس میں بھی آیا تھا۔
عدالت نے پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ کیا آپ انڈر ٹیکنگ دے سکتے کہ اسمبلی نہیں ٹوٹے گی؟ اس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد اسمبلی نہیں ٹوٹ سکتی۔
عدالت میں معزز جج نے ریمارکس دیے کہ عدم اعتماد تو واپس ہوچکی ہے، اگرآپ اسمبلی توڑ دیں گے تو پھر یہ پٹیشن غیر موثر ہوجائے گی اور نیا کرائسس پیدا ہوگا۔
عدالت نے سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر سے کہا کہ ہم دس منٹ کا وقت دے رہے ہیں، آپ اپنے موکل سے ہدایت لے لیں۔
تھوڑی دیر بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ابھی انڈر ٹیکنگ دینے کے لیے وقت درکار ہے، عدالت وزیراعلیٰ کو بحال کرکے خود اسمبلی تحلیل نہ کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔
اس پر جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیے کہ ایسے تو عدالت عبوری ریلیف نہیں دے سکے گی، ہم وزیراعلیٰ کے اسمبلی تحلیل کے آئینی اختیار پر کیسے روک لگا سکتے ہیں۔
عدالت نے ایک بار پھر سماعت میں ایک گھنٹے کا وقفہ کیا۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔