موت بمقابلہ موت

فردوس شمیم نقوی

اس وقت پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ سندھ میں 40 دن سے زیادہ لاک ڈاون کے بعد ہم کس جگہ کھڑے ہیں؟؟؟

آج تک شہرقائد میں لاک ڈاون پر مکمل عملدرآمد نہیں کروایا جاسکا ہے،حکومت سندھ کے بیشتر احکامات کی خلاف ورزی کی گئی، آبادی کی اکثریت سماجی دوری یا فاصلے پر عملدرآمد نہیں کر پائی ہے،
در حقیقت ، ہم ماضی اور حال میں متعدد بار کہتے آئے ییں کہ خصوصاً کراچی اور پورے ملک میں کچی آبادیوں میں سماجی دوری نافذ کرنا ناممکن ہے۔

کچی آبادیوں میں 400 مربع فٹ کے رقبے پر 10 افراد رہتے ہیں ، ایسے جگہوں اور علاقوں میں نوجوان، بچے اور بوڑھوں کا گھروں تک محدود رہنا ناممکن ہے ، گھروں سے باہر نکلنا انکی مجبوری ہوتی ہے، بچوں کے پاس چھوٹے سے گھروں میں جب کچھ کرنے کو نہیں ہوتا تو وہ باہر نکل کر کرکٹ کھیلتے ہیں اور پھر گیند اور بلا وائرس کی منتقلی کے آلات بن جاتے ہیں۔

مساجد میں لاک ڈاؤن کا اعلان پانچ وقت کی نمازیں، نماز جمعہ اور تراویح کی نماز کے لیے کیا تھا لیکن کچھ مساجد لاک ڈاون پر عمل پیرا نہیں ہیں، اگرچہ مجھے ذاتی طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ علمائے کرام اپنے فیصلوں کے حوالے سے جذبات سے کام لیتے ہیں، جبکہ دوسری جانب مدینہ میں عظیم االشان مسجد نبوی بند ہے اور 114 مسلم اقوام نے سماجی دوری کے لیے مساجد کو بند کرنے کا انتخاب کیا ہے، اگرچہ کسی معزز شخص کے لیے مسجد کو کھولا جاتا ہے اس پر طے کر دہ ایس او پی پر عملدرآمد کروایا جاتا ہے،
مگر کراچی میں احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، سندھ حکومت کے احکامات صرف کاغزوں تک محدود ہیں ان پر عملدرآمد نظر نہیں آتا ہے۔


کچی آبادیوں میں مقیم لوگ اتنے غریب ہیں کہ ان کے پاس پیٹ بھرنے کے لیے کھانا نہیں ہے وہ کیسے لاک ڈاون پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں ؟ سندھ حکومت چند لوگوں کو گرفتار کرکے دیکھےتو علم ہوگا کہ پورا تھانہ علاقہ مکینوں کے گھیراؤ میں ہے، امن و امان کی صورتحال خراب ہوگی اور حکومت کو انہیں رہا کرنا پڑے گا، دوسری جانب ایک لمحے کے لئے یہ تصور کرتے ہیں کہ علاقہ مکین مشتعل نہیں ہوتے ، سندھ حکومت بتائے کہ وہ گرفتار لوگوں کو کہاں رکھیں گی ،سندھ کی جیلیں پہلے ہی بھری ہوئی ہیں ، اور خدا نہ کرے اگر ان میں سے کوئی کرونا سے سے متاثر ہوتا ہے توسندھ حکومت کیا کرے گی ؟
لہذا مختصر یہ کہ سندھ حکومت ایک ایسی صورتحال میں ہے جہاں صرف احکامات زبانی یا کاغزوں کی حد تک محدود ہے مگر لاک ڈاؤن عملی طور پر قابل عمل نہیں ہے۔

ہمیں بحیثیت عوام اور حکومت کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ جہاں سے ممکن ہو وہاں لوگوں کو سزا دیئے بغیر ہی سماجی دوری کو ممکن بنانا ہوگا جس کے لیے انہیں آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت یے،
خلاف ورزی کرنے والوں کو کسی جگہ لے جاکر ویڈیو دکھائی جانی چاہئے کہ کس طرح کرونا وائرس لوگوں کو متاثر کرسکتا ہے اور لوگ کیسے مرتے ہیں۔ دوم یہ کہ ہمیں اسمارٹ لاک ڈاؤن کی مشق کرنی ہوگی، ایسی تمام سرگرمیاں جن کا معاشی اثربہت کم ہو اور جو دوبارہ شروع کی جاسکتی ہے انہیں تاحکم ثانی بند رکھنا چاہیے، جیسے کہ ہم پرائمری اسکول ، ساحل ، پارکس ، تفریحی مرکز وغیرہ کو بند کر سکتے ہیں، ہمیں معاشی سرگرمیوں کی اجازت دینا ہوگی ، اور خریداری کے لیے محدود اوقات مختص کرنے کے بجائے 24 گھنٹے اجازت دی جائے تا کہ لوگوں کا رش نہ ہو۔

صنعتوں اور کاروباری اداروں کو جو محفوظ طریقوں پر عمل پیرا ہونے کے خواہاں ہیں انہیں کاروبار شروع کرنےکی اجازت دی جانی چاہئے،
جب بھی کوئی نیا کیس رپورٹ ہو تو اسے فوری آئسولیشن جبکہ اس سے رابطے میں لوگوں کو قرنطینہ کیا جائے، اس سے زیادہ کہ ہم علاقے کو سیل کردیں اور وسیع پیمانے پر ٹیسٹ کریں، اس طرح اس علاقے میں وائرس کے پھیلاو کو روکا جاسکتا ہے۔

ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی ضرورت ہے کہ اس نے آج تک ہمیں بچایا ہے، امریکہ میں جہاں ہمارے ایک دن کے بیس ہزار ٹیسٹ کے مقابلے میں روزانہ 200000 سے زیادہ ٹیسٹ ہوتے ہیں ، جہاں طبی سہولیات ہمارے لئے بے مثال ہیں جہاں
اموات کی تعداد 55000 ہے اور پاکستان میں 350 ہے۔
ان ممالک میں جہاں آج بھی اموات کی تعداد یومیہ
1000 سے زیادہ ہے وہاں بھی یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ وہ معیشت کا گلا گھونٹ نہیں سکتے۔
طویل عرصے سے لاک ڈاؤن کے اثرات انسانوں پر تباہ کن انداز میں اثرانداز ہورہے ہیں،افسردگی ، مایوسی ، بھوک ، خودکشی کے رحجان مہں اضافہ ہورہا یے، کاروبار مستقل طور پر بند ہوجائیں تو لاتعداد افراد کو بے روزگار ہوجائینگے، ہم جانتے ہیں کہ ہمارے پاس سوشل نیٹ ورک نہیں ہے۔ ہمارے پاس اتنی بڑی آبادی کو کھانا کھلانے کے وسائل نہیں ہیں۔ ہمارے پاس 40٪ سے زیادہ آبادی ہے جو معاشی مدد کے طلب گار ہے۔ سرکاری مشینری میں اس طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے نہ تو صلاحیت ہے اور نہ ہی قابلیت۔ نجی شعبہ آنے والے ہفتوں میں خود کو ختم کر دے گا۔ لہذا ، ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے کہ ہم اپنی صورتحال کے مطابق منصوبہ بندی کریں اور یہ یقینی بنانے کے لئے پوری کوشش کریں کہ موت بمقابلہ موت کے مابین اس لڑائی میں مجموعی طور پر موت کی شرح کو ہر ممکن حد تک کم رکھا جائے،

چار ہفتوں سے بھی زیادہ عرصہ سے ہم بار بار مطالبہ کر رہے ییں، لیکن میڈیا کی توجہ حاصل کرنے اور ترقی یافتہ ممالک کی دیکھا دیکھی وہی ااقدمامات اپنے ملک میں عملدرآمد کرنے کی کوشش کر رہےہیں، اس عمل سے روز مرہ اجرت اور دیہاڑی دار طبقہ بے انتہا تکلیف میں ہے ، انکے بچے شدت بھوک وجہ سے روتے ہیں اور وہ کمانے کے لیے گھر سے باہر نہیں جاسکتے، اس صورتحال میں وہ لوگ زہنی ازیت اور مایوسی میں مبتلا یورہے ییں، اب وقت ہے کہ ہم جائزہ لیں اور صورت حال سے نمٹنے کے لئے عملی حل پیش کریں ، ان میں سے کچھ کو اوپر بیان کیا گیا ہے۔ ایسے بہت سی تجاوزیر ہیں اور احتیاطی تدابیر ہیں جنکے زریعے لاک ڈاون میں نرمی برتی جاسکتی ہے، مگر پہلے مندرجہ بالا تجاوزیر پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔

یہ بحث سیاسی نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا نقطہ نظر ہے جہاں وفاقی حکومت حکومت سندھ سے مختلف نظریہ رکھتی ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ جی او ایس گیلری میں کھیل رہا ہے اور وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہا ہے۔ واقعتا یہ ایک بدقسمتی کی صورتحال ہے جب سمجھدار لوگ سنجیدہ امور پر گفتگو کرنے بیٹھ نہیں سکتے ہیں۔ یہ صورتحال اگر بگڑتی ہے تو جمہوریت کی موت اور معیشت کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔ کسی بھی صورت میں کرونا کی وجہ سے ہونے والی اموات کو دیگر امراض میں مبتلا افراد کی اموات سے بالکل الگ الگ شمار کیا جانا چاہئے۔ سندھ کا شعبہ صحت پہلے ہے ایک ڈراونا خواب ہے جبکہ دوسری جانب سندھ کے حکمرانوں کے غلط فیصلے تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔

اس میں کون حق بجانب ہے اس کا اندازہ پیپلز پارٹی کی بوکھلاہٹ سے لگایا جاسکتا ہے، پیپلز پارٹی کھوکھلی ہوگئی ہے ، پیپلز پارٹی عوام پر جو مصیبت ڈھا رہی ہے اس کا ان پر پچھلی تین دہائیوں میں ہونے والی تمام بدعنوانیوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ اثر پڑے گا۔

کوئی صرف یہ سوال پوچھ سکتا ہے کہ ”کیا سندھ کے حکمران خصوصاً سندھ کے معاملات کو خصوصی طور پر سن رہے ہیں؟“ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اس "موت کے بمقابلہ موت کی صورتحال” کے بارے میں اپنی رائے لازمی پیش کریں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔