اردو اور مولوی عبدالحق

علیشاء پیر محمّد

سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

یہ شعر اس تحریر میں شامل کرتے وقت خیال یہ نہیں تھا کہ اس شعر کے ذریعہ میرے قلم کو بابائے اردو مولوی عبدالحق جیسی عظیم شخصیت کو آج نوجوان نسل کے سامنے متعارف کروانے کا موقع ملے گا ۔

کیوں کہ ہمارے معاشرے کی بے حسی ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں اردو ادب کو پڑھنا وقت کا زیاں اور فضول سمجھا جاتا ہے ۔اردو سے زیادہ انگریزی کو ترجیح دی جاتی ہے بیشک اس چیز سے انکار نہیں کہ سرسید احمد خان نے مغربی اور جدید علم حاصل کرنے کا جذبہ نوجوانوں میں پروان چڑھایااور دور حاضر میں اسے مغربی علوم کا گہوارہ قرار دیا لیکن اس کے باوجود پاکستانی قوم کی شازونادر تعداد ہی اردو ادب میں ماسٹر اورتھیسز کر رہی ہے ۔

آج اس تحریر کے ذریعے پاکستان کے طلبہ کی بڑی تعداد کو جو پاکستان کی مختلف جامعات میں زیر تعلیم ہیں ان کے ساتھ ساتھ فیڈرل اردو یونیورسٹی کے طالب علموں کی ایک کثیر تعداد کو بھی یہ باور کرایا جائے گا کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کا مزار کہاں پر واقع ہے ؟کس جگہ واقع ہے اور طالب علموں کو اس کے بارے میں وہاں رہتے ہوئے بھی علم کیوں نہیں ہے کہ ہر سال ہزاروں طالب علم اپنے اپنے اداروں میں علم حاصل کرکے سند لے کر روانہ ہو جاتے ہیں اس پر ستم یہ ہے کہ اردو کے ادارے کے طالب علم بھی اردو میں ماسٹر کرنے کے بعد اس جامعہ سے گزر جاتے ہیں ان نامعلوم افراد کی طرح جو اپنے کام سرانجام دے کر اپنی منزل کی جانب بڑھ جاتے ہیں اور سابقہ منزل کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھتے ۔آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ مولوی عبدالحق صاحب کا مزار کراچی کی کس جامعہ میں موجود ہیں ۔

فیڈرل اردو یونیورسٹی مولوی عبدالحق کیمپس جیسا خوبصورت ادارہ بابائے اردو مولوی عبدالحق مرحوم کی کاوشوں کا ثمر وہ خوابوں کی تعبیر ہے۔ لیکن افسوس کے یونیورسٹی کے طلبہ کی بڑی تعداد بابائے اردو سے ناواقف ہے اور اگر کچھ لوگ واقف بھی ہیں تو انہیں یہ پتا نہیں کہ ان کی قبر کہاں ہے کیوں کہ جس جگہ ان کی قبر ہے وہ عمارت انجمن ترقی اردو کی ہے اور آج کل ایک گودام بنی ہوئی ہے قبر نہایت ہی گرد آلود اور خستہ حالی کا شکار تھی لیکن پچھلے دو سالوں میں اسے بہتر کیا گیا مگر پھر کہوں گی کہ اردو کے بے تاج بادشاہ مولوی عبدالحق کے بارے میں یونیورسٹی کے طالب علموں کو آگاہ نہ ہونا یہ اس جامعہ کی انتظامیہ اور خاص کر ماس کمیونیکیشن اور اردو کے ادارے پر سوالیہ نشان ہے اردو زبان کے محسن کی قبر کے ساتھ یہ سلوک ہمارے لئے افسوسناک ہے ۔

میری انجمن ترقی اردو اور اردو یونیورسٹی کے ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ نئے آنے والے اور پرانے طالب علموں کو مولوی عبدالحق کے بارے میں بتایا جائے اور ہر روز ان کی قبر کی صفائی وغیرہ کی جائے نہ کہ صرف ان کی برسی یا پھر ان کی پیدائش کے وقت اس کام کو سرانجام دیا جائے اور ان کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی جائے ۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔