بھابی اور دیور۔۔۔ ایک نازک رشتہ

تحریر: محمد انس صدیقی

آج میں ہمارے معاشرے کے ایک سنگین پہلو پر قلم کشائی کروں گا، جو دیکھنے اور سننے میں تو معمولی تصور کیا جاتا ہے، لیکن اس کے مضر اثرات کی وجہ سے ہمارے گھرانے اور خصوصاً ہمارا مسلم معاشرہ متاثر ہورہا ہے۔
جی میں بات کررہا ہوں دیور بھابی کے رشتہ کی یا پھر جیٹھ اور بھابی کے رشتے کی، یہ روایت مختلف غیر مسلم مذاہب میں عام ہے کہ دیور اور جیٹھ بھابی سے بے حد بے تکلف ہوتے ہیں، ناصرف یہ بلکہ وہ اکثر ہنسی مذاق میں اپنے رشتے کی حدود و قیود کو بھلا کر اس رشتے کے تقدس کو پامال کردیتے ہیں۔ اب اگر ہم مسلم معاشرے پر نظرثانی کریں تو آج کے اس پُرفِتَن سوشل میڈیا کے دور میں یہی حرکات و سکنات ہمارے مسلم گھرانوں میں بھی رائج ہوتی جارہی ہیں، مسلمانوں کی شادیوں میں غیر مذہبی رسوم کی ادائیگی، بہنوئی سالی کی بے تکلفی، بھابی دیور کی بے تکلفی اس قدر عام ہوچکی کہ ہم شریعتِ اسلامیہ کے اصولوں کو پسِ پشت ڈال کر جہنم کی طرف قدم بڑھائے جارہے ہیں، ہم یہ بھلا چکے ہیں کہ دینِ اسلام نے جس طرح عورت کو دیگر نامحرم مردوں سے پردے کا حکم دیا ہے، اسی طرح جیٹھ، دیور اور بہنوئی سے بھی پردے کا حکم ہے۔ چنانچہ اس ضمن میں اللّٰہ عزوجل کے حبیب محمد مصطفیٰ ﷺ اس رشتے کی نزاکت کا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ:
(ترجمہ): روایت ہے حضرت عقبہ ابن عامر سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللّٰہ ﷺ نے کہ عورتوں کے پاس جانے سے بچو ۱؎ کسی نے عرض کیا یارسول ﷲ ﷺ دیور کے متعلق فرمایئے، فرمایا دیور تو موت ہے۔۲؎(مسلم بخاری)
اس حدیثِ مبارکہ کے پہلے حصے میں تو رسول اللّٰہ ﷺ نے غیر محرم عورتوں کے قریب جانے سے منع فرمایا ہے، لیکن جب دیور کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس پر خصوصی تلقین فرمائی ہے، یعنی بھاوج کا دیور سے بے پردہ ہونا موت کی طرح باعث ہلاکت ہے۔ یہاں مرقات نے فرمایا کہ حمو سے مراد صرف دیور یعنی خاوند کا بھائی ہی نہیں بلکہ خاوند کے تمام وہ قرابت دار مراد ہیں، جن سے نکاح درست ہے جیسے خاوند کا چچا، ماموں، پھوپھا وغیرہ اسی طرح بیوی کی بہن یعنی سالی اور اس کی بھتیجی، بھانجی وغیرہ سب کا یہی حکم ہے۔ خیال رہے کہ دیور کو موت اس لیے فرمایا کہ عادتًا بھاوج دیور سے پردہ نہیں کرتیں، بلکہ اس سے دل لگی، مذاق بھی کرتی ہیں اور ظاہر ہے کہ اجنبیہ غیر محرم سے مذاق، دل لگی کسی قدر فتنہ کا باعث ہے اب بھی زیادہ فتنہ دیور، بھاوج اور سالی، بہنوئی میں دیکھے جاتے ہیں۔
مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 حدیث نمبر:3102
حدیث کی رو سے یہ رشتے باقی نامحرم رشتوں کی نسبت زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں اور اگر ہم اس نازک رشتے کے تقدس کا خیال نہ رکھتے ہوئے اللّٰہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات سے روگردانی کریں گے تو ہمیں اس کا نتیجہ یہ ملے گا کہ بہن نے ہی بہن کا گھر کا اجاڑ دیا، بھائی نے ہی بھائی کی شادی شدہ دنیا برباد کردی۔
ان سب غیر اخلاقی رسوم کے قصوروار جس حد تک ہمارے نوجوان ہیں، اسی حد تک ہمارے گھر کے بڑے بھی ہیں جو اس ماڈرن دنیا کی رنگینیوں میں نوجوان نسل کے ساتھ ہر گناہ میں شامل رہتے ہیں، بجائے ان کو اپنی تہذیب کا پابند کرنے کے خود مغربی تہذیب کو اپناتے ہیں اور پھر کسی بھی ناخوش گوار واقعے کی صورت میں پچھتاتے ہیں۔
معزز قارئین کرام، آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ہم اپنے گھروں میں خوش گوار ماحول قائم کرنا چاہتے ہیں اور آنے والی نسل کو بہترین تہذیب و تمدن کا پیکر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی زندگیوں میں، اپنے گھرانوں میں اور اپنے معاشرے میں شریعتِ اسلامیہ کے اصولوں اور قواعد و ضوابط کو رائج کرنا ہوگا، تاکہ ہماری نوجوان نسل بے راہ روی سے محفوظ رہے اور اپنے قریبی رشتوں کے تقدس کا احترام کرے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔