پاکستان رینجرز کا اجمالی تعارف اور کراچی کے امن میں مثالی کردار

تحریر: مشرف اسد

رینجرز ایک داخلی سیکیورٹی فورس ہے، جس کا بنیادی مقصد جنگی علاقوں اور عوام کے درمیان رہ کر سیکیورٹی فراہم کرنا اور امن و امان کی فضا کو قائم رکھنا ہے۔ یہ ذمے داری پاکستان رینجرز، پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی معاونت سے بخوبی نبھاتی ہے۔ پاکستان رینجرز ملکِ پاکستان میں ایک نیم فوجی ادارہ ہے، یہ سیکیورٹی ادارہ پاک فوج اور پاکستانی وزیرِ داخلہ کے ماتحت ہے، چونکہ مسلح افواج کی ذمے داری یے کہ وہ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کریں۔ اسی سبب کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے پاکستان رینجرز (ایک نیم فوجی ادارہ) کا قیام عمل میں لایا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ یہ ادارہ عوام کے درمیان رہ کر دیگر سیکیورٹی اداروں کی معاونت سے کسی بھی ناگہانی و ناخوشگوار واقعے سے بروقت نمٹ سکے اور ضرورت پڑنے پر ملک و قوم کے دفاع کے لیے سرحدوں پر بھی اپنا کردار ادا کرسکے۔
پاکستان رینجرز ارتقاء و آغاز:
پاکستان رینجرز کا قیام 1942 میں ہوا، جب برطانوی حکومت نے سندھ پولیس کو رینجرز کے طور پر ایک خصوصی یونٹ مختص کیا۔ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد، اس کو مشرقی سرحدوں کی حفاظت کی ذمے داری سونپی گئی، چونکہ رینجرز کو نہ تو صحیح طریقے سے تشکیل دیا گیا تھا اور نہ ہی کسی خاص مقصد کے لیے تیار کیا گیا تھا، اس لیے 1959 میں ان کی تشکیلِ نو کی گئی، 1959 کے آرڈیننس (پاکستان رینجرز آرڈیننس 1959) کے زیر انتظام، حکومت کی جانب سے ہدایات جاری کیں اور خصوصی اختیارات پاکستان رینجرز کے سپرد کردیے گئے، اس وقت اس فورس کا نام تبدیل کرکے مغربی پاکستان رینجرز رکھا گیا۔
موجودہ سندھ رینجرز ایک مشترکہ فورس ہے جو 90 کی دہائی کے اوائل میں اندرون سندھ میں اسٹرٹیجک اینٹی ڈکیٹ آپریشن کے لیے تشکیل دی گئی تھی۔ یہ فورس مہران فورس کے نام سے اپنی خدمات انجام دیتی تھی اس میں اس وقت کی موجودہ، پاکستان آرمی کی 3 بٹالین شامل تھیں۔ جسے دور حاضر میں سندھ رینجرز کےنام سے جانا جاتا ہے۔
پاکستان رینجرز کا انتظامی ڈھانچہ:
پاکستان رینجرز سندھ میں تین سیکٹرز پر مشتمل ہے۔
1)عبداللّٰہ شاہ غازی
2) سچل سرمست
3) شاہ عبداللطیف بھٹائی
چونکہ سندھ کے عوام صوفیاء کرام سے خاص عقیدت رکھتی ہے اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے سندھ رینجرز نے اپنے سیکٹرز کے نام ان بزرگان دین سے منسوب کئے ہیں۔ موجودہ تحقیق کے مطابق صوبہ سندھ میں پاکستان رینجرز کے کم و بیش 24,945 فعال اہلکار اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، جو 30 ونگز میں منقسم ہیں- ہر ونگ قریباً 830 فعال رینجرز اہلکاروں پر مشتمل ہے۔
رینجرز کے انتظامی عہدے اور ان کا کردار:
سپاہی:-
رینجرز میں سب سے آخری عہدہ سپاہی کا ہوتا ہے، لیکن نچلے درجے میں ہونے کے باوجود اس کی ذمے داری سب سے بڑی ہوتی ہے، کیونکہ کسی بھی ناخوش گوار واقعے کی صورت میں سپاہی ہی اپنے افسران اور شہریوں کی حفاظت کی خاطر صفِ اوّل میں کھڑا ہوتا ہے اور اپنی جان کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
لانس نائیک:-
لانس نائیک بھی سپاہی کے مساوی درجہ ہوتا ہے، لیکن اس کے کاندھوں پر ایک وی (V) کا نشان ہوتا ہے، البتہ یہ سپاہی کی مانند ذمے داری سرانجام دیتا ہے۔
نائیک:-
نائیک کا عہدہ نچلے دونوں سے بڑا ہوتا ہے، اس کے کاندھوں پر دو وی (V) کے نشان موجود ہوتے ہیں اور اس کے ماتحت 1 سے 2 سپاہی اپنی ذمہ داری سر انجام دیتے ہیں۔
حوالدار:-
یہ رینجرز کا چوتھا درجہ ہوتا ہے ایک حوالدار کے ماتحت کم و بیش 2 یا 3 سپاہی کام کرتے ہیں اور حوالدار کے کاندھے پر 3 وی (V) ہوتے ہیں۔
جونیئر کمیشن آفیسر:-
ان عہدوں پر سب انسپکٹر ،انسپکٹر اور سینئر انسپکٹر فائز ہوتے ہیں. سب انسپکٹر کے کاندھوں پر دو تاج (Crown) موجود ہوتے ہیں اور انسپکٹر کو تین تاج (Crown) دیے جاتے ہیں ان میں سب سے بڑا درجہ سینیئر انسپکٹر کا ہوتا ہے جس کے ماتحت ایک پوری ٹیم تشکیل دی جاتی ہے جس میں 1 ڈرائیور ،3 مسلح جوان،1 خاتون سب انسپکٹر اور دو موٹر سائیکلیں شامل ہوتی ہیں جو کسی بھی ناگہانی یا ناخوشگوار واقعے کی صورت میں سینئر کی ہدایت پر اپنی ذمے داری پوری کرتے ہیں۔۔
جونیئر آفیسرز:-
اس عہدے میں بھی انسپکٹر اور سب انسپکٹر اپنی خدمات پیش کرتے ہیں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ رینجرز کی ذمہ داری بھی سینئیر انسپکٹر کی طرح ہوتی ہے لیکن ڈی آیس آر ان سے مختلف اسی لئے ہیں کہ یہ براہ راست رینجرز میں بھرتی ہوتے ہیں جس کے باعث ان کی ترقی جلدی ہوتی ہے اور بڑے عہدوں تک ہوتی ہے.
سینئر آفیسرز:-
ان عہدوں میں سرفہرست سپرنٹنڈنٹ ہوتا ہے جس کے ماتحت ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ رینجرز،انسپکٹر اور سب انسپکٹر کی ایک ٹیم ہوتی ہے اور یہ رینجرز کے ایک ونگ میں متعدد ہوتے ہیں
سینئر سپرنٹنڈنٹ:-
ایس ایس پی یہ بھی رینجرز کا ایک اہم عہدہ ہوتا ہے، ان کے ماتحت سپرنٹنڈنٹ اور نچلے تمام عہدوں پر مشتمل ایک ٹیم اپنی خدمات پیش کرتی ہے۔
ڈائریکٹر جنرل:-
ڈی جی رینجرز کے ماتحت پورا ایک شہر ہوتا ہے اور اس شہر میں موجود رینجرز کی تمام فورسز ڈی جی کی ہدایات کے مطابق اپنی ذمے داری سر انجام دیتے ہیں۔
پاکستان رینجرز میں بھرتی کے قواعد و ضوابط
پاکستان رینجرز میں بھرتی کے لیے انتخاب 2-3 ہفتوں میں ہوتا ہے، ان میں مرد و خواتین دونوں شامل ہوتے ہیں۔
1) قواعد و ضوابط (برائے مرد):
مردوں کو جسمانی طور پر جانچنے کی شرائط یہ ہیں کہ قد: 5فٹ،6 انچ ہونا چاہیے، چھاتی 33 انچ (معہ 1½ انچ پھلاؤ)،وزن: قریباً 55 کلو گرام لازمی ہے، اس کے علاوہ ایک درخواست دہندہ مرد کی عمر بالترتیب 18 اور 25 سال کے درمیان ہونی چاہیے اور اگر تعلیمی قابلیت کا احاطہ کیا جائے تو ایک درخواست دہندہ فیکلٹی آف آرٹس (FA) یا فیکلٹی آف سائنس (Fsc) پاس ہونا لازمی ہے۔ پاکستان رینجرز میں شمولیت کے لیے مذکورہ بالا قواعد و ضوابط کے ساتھ سب سے اہم شرط یہ ہے کہ درخواست دہندہ پاکستانی شہری ہو۔ ایک رینجرز اہلکار کو انتخاب و تربیت کے بعد اس کے اپنے صوبے میں تعینات کردیا جاتا ہے اور بوقت ضرورت ملک کے کسی بھی خطے یا بیرون ملک بھی خدمات انجام دینے کے لیے بھیجا جاسکتا ہے۔
قواعد و ضوابط (برائے خواتین):
خواتین کے قواعد و ضوابط بھی مردوں سے مطابقت رکھتے ہیں، لیکن جو قاعدے دونوں کے جدا ہیں وہ یہاں بیان ہوں گے، جیسے خواتین کا قد: 5فٹ، 3 انچ مطلوب ہوتا ہے۔ باقی جسمانی معیار میڈیکل قوانین کے مطابق طے کیے جاتے ہیں، درخواست دہندہ خاتون غیر شادی شدہ ہونی چاہیے اور خواتین کو دورانِ ٹریننگ شادی کرنے کی ممانعت ہوگی، عمر اور تعلیمی معیار مرد و خواتین کے یکساں ہیں۔
کراچی میں امن و امان کا قیام:
سال 2010 کے بعد پاکستان رینجرز نے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں امن کے قیام میں اہم کردار ادا کیا، کیونکہ اس وقت کراچی کی فضا میں جرائم آکسیجن کی مانند شامل ہوچکے تھے، ٹارگٹ کلنگ، تاجران کے اغوا برائے تاوان کی وارداتیں، فرقہ واریت، تعصب اور لسانیت کی بنیاد پر قتل و غارت گری عروج پر تھی۔ اس کے برعکس ناقص تربیت، فرسودہ سازوسامان، مشینری اور سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر کی جانے والی بھرتیوں کے باعث پولیس اتنی بااثر و طاقتور نہیں تھی کہ کراچی کو ان جرائم پیشہ عناصر کے چنگل سے آزاد کرواسکیں۔ شہر کراچی میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے سبب ایک بڑی تعداد میں تاجر برادری کراچی چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوگئی اور اس طرح کراچی جرائم کی لپیٹ میں ہونے کے ساتھ معاشی بحران کا بھی شکار ہوگیا۔
ان خونی انتشار پسند گروہوں کے خلاف ایک آپریشن شروع کیا گیا اور تمام مجرموں کو پھانسی دے دی گئی، کچھ کو انکاؤنٹر کے ذریعے موقع واردات پر ہی ہلاک کردیا گیا اور بہت سے گرفتاریوں کے بعد قانونی عدالتوں ان پر مقدمہ چلایا گیا اور ان کے خلاف بلاتفریق کارروائیاں کرتے ہوئے جرائم پیشہ عناصر کو قابو کیا گیا۔ 2015 پاکستان رینجرز کے لیے کراچی میں پُرامن فضا کے قیام کے لیے سنگِ میل کی سی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ اس دوران رینجرز نے کراچی کی ایک جماعت کے دفتر پر چھاپہ مارا، جس میں کئی شرپسند عناصر اور کراچی کے جانے مانے مجرموں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں اور یہی نہیں ان کے دفتر سے جدید اسلحہ اور گولا بارود بھی برآمد کیا گیا، جو اس بات کی نشان دہی کررہا تھا کہ آنے والے وقت میں ریاست کے خلاف جنگ کی منصوبہ بندی کی جارہی تھی۔ کراچی میں رینجرز کو اختیارات دینے کا مقصد مکمل ہوتا نظر آرہا تھا، کیونکہ شہر قائد میں پُرامن فضا کے قیام کے لیے یہ ضروری ہوگیا تھا۔ مگر اسی کے ساتھ ہمیں پاکستان رینجرز کے افسران، جی سی اوز اور اہلکاروں کی قربانی پیش کرنی پڑی اور روشنیوں کے شہر کی رونقیں بحال کرنے کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑی۔
کراچی میں کالعدم تحریک طالبان کے دو متحرک دھڑے کام کررہے تھے، جو اس دہشت گرد جماعت کی وسعت کی عکاسی کرتے تھے۔ ان میں سے ایک ٹی ٹی پی سوات ایک دھڑا تھا، جو کالعدم تحریک طالبان کے موجودہ سربراہ مُلا فضل اللہ کا وفادار تھا، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ افغانستان فرار ہوگیا ہے۔ کراچی میں ٹی ٹی پی سوات کا خفیہ سیٹ اپ بھی تھا۔ یہ وہی گروہ ہے جس نے شہر کے مغربی علاقوں میں زیادہ تر پولیس اہلکاروں اور سیاسی جماعت کے رہنماؤں کو قتل کیا تھا۔ ٹی ٹی پی مہمند دوسرا دھڑا ہے، جس نے ٹی ٹی پی سے علیحدگی کے بعد اپنا نام کالعدم تحریک طالبان احرار رکھ لیا تھا۔ یہ جماعت مہمند میں مقیم عمر خالد خراسانی کے ماتحت تھی، اس گروپ نے کراچی میں سیکیورٹی اہلکاروں کو شدید نقصانات پہنچایا، لیکن پاکستان رینجرز نے ان دونوں گروپس کے دہشت گردوں کے تمام ناپاک عزائم کو اپنی جواں مردی سے ناکام بنایا اور کراچی کے امن میں پُراثر کردار ادا کیا۔
لیاری کا علاقہ کراچی کا دل سمجھا جاتا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے لیاری کا علاقہ صدر سے بھی جڑتا ہے اور ٹریڈ روٹ سے بھی، اسی وجہ سے لیاری بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ لیاری میں مختلف قوموں کے لوگ رہائش پذیر ہیں۔ لیاری کے ووٹ بینک کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ بااثر عناصر نے معروف گینگسٹر عبدالرحمٰن بلوچ عرف رحمان ڈکیت کو اس علاقے پر مسلط کردیا، تاکہ دوسری جماعتوں کو لیاری تک رسائی نہ دی جاسکے۔ بدلے میں رحمان ڈکیت کو مقامی کاروباروں سے بھتہ خوری، منشیات، اسلحہ اور گولا بارود کی اسمگلنگ کی آزادانہ اجازت دے دی گئی۔ یہ معاہدہ سیاسی لباس میں چھپے لٹیروں کے دماغ کی اختراع تھا، جنہوں نے 2008 میں لیاری کے معاملات کی دیکھ بھال اور اپنے علاقے میں جرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے رحمان ڈکیت کو ایک نوتشکیل شدہ عوامی امن کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا۔ اس نے چھوٹے جرائم کو کم کیا اور ایک مقامی ہیرو بن گیا۔ اپنی بڑھتی ہوئی شہرت کے باوجود وہ بغیر کسی روک ٹوک کے اپنے ہی جرائم کے ہنگامے پر چلاگیا اور لیاری میں غیر متنازع کرائم باس بن گیا۔ اس نے جلدہی اپنے سہولت کاروں سے سبکدوشی اختیار کرلی اور پھر 2009 تک پولیس کو مطلوب رہنے کے بعد بالآخر اگست 2009 میں پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا۔
اس کے بعد اس کی جماعت کی باگ ڈور اس کے فرسٹ کزن اور ساتھی مجرم عزیر جان بلوچ نے سنبھال لی۔ عزیر لسانیت کی بناء پر ایک سیاسی جماعت کا سخت دشمن تھا اور کئی ٹارگٹ کلنگز کے بعد ایک سیاسی جماعت کو ختم کرنے کے لیے دباؤ میں آیا۔ سرکاری طور پر ناکارہ ہونے کے باوجود، تنظیم نے زمینی طور پر کام کرنا جاری رکھا۔ حکومت نے بالآخر 11 اکتوبر 2011 کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی شق (11/B) کے تحت عوامی امن کمیٹی پر پابندی لگادی گئی۔ وزارت داخلہ سندھ نے عوامی امن کمیٹی (پی اے سی) پر پابندی لگانے کے بعد بالآخر نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ مزید براں، وزارت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی کہ وہ کمیٹی کی سرگرمیوں کی نگرانی کریں۔
لیاری آپریشن 27 اپریل 2012 کو شروع ہوا۔ عزیر کے گھر پر چھاپہ مارا گیا، مجرم پکڑے جانے سے بچ گیا۔ پاکستان رینجرز نے لیاری کے مشکل سے مشکل علاقوں میں جاکر اپنی جان کی پروا کیے بغیر اس دہشت گرد تنظیم کے خلاف آپریشنز کیے۔ بالآخر پاکستان رینجرز کی انتھک محنتوں کے باعث آج لیاری میں امن ہے اور دہشت گردوں کا اثررسوخ انتہائی کم ہوچکا ہے۔
پاکستان رینجرز ہیلپ لائن:
چونکہ پاکستان رینجرز محکمہ پولیس کی طرح عوام الناس کے درمیان رہ کر اپنی خدمات سرانجام دیتی ہے تو اسی سبب کو مدِنظر رکھتے ہوئے پاکستان رینجرز نے کسی بھی ناگہانی حادثے یا مجرمانہ سرگرمی کی اطلاع دینے اور سیکیورٹی اداروں کو بروقت مطلع کرنے کی غرض سے ہیلپ لائن نمبرز اور ای میل فراہم کیا ہے، جو درج ذیل ہیں۔
ہیلپ لائن نمبر (پی ٹی سی ایل)
021-36493000-1101
ہیلپ لائن نمبر (موبائل)
+92-21992052857
پاکستان رینجرز ویب سائٹ:
http://www.pakistanrangers.com
پاکستان رینجرز ای میل:
help@paksitanrangerssindh.org
پاکستان رینجرز ہیڈ کوارٹر ایڈریس
ایچ کیو پاکستان رینجرز سندھ مسلم جناح کورٹس بلڈنگ ڈاکٹر ضیاء الدین احمد روڈ کراچی 4 سندھ پاکستان ۔
شرح جرائم قبل و بعد از تعیناتی پاکستان رینجرز:
روشنیوں کے شہر کراچی میں رینجرز کی تعیناتی سے قبل حالات انتہائی کشیدگی کا شکار تھے، فرقہ وارانہ و لسانی فسادات کے باعث شہر میں خوف کی فضا قائم ہوچکی تھی اور پھر ہم نے وہ دن بھی دیکھا کہ جب 2014 میں شہروں میں جرائم کی شرح کی تحقیق کی گئی تو کراچی کا نام بھی نمایاں ہوا، اس فہرست میں دنیا کے مختلف شہروں میں جرائم کی شرح کا موازنہ کیا گیا ہے، جیسے کہ نئی دہلی، ہیوسٹن، ڈھاکہ اور ساؤ پالو جرائم کی درجہ بندی کے لحاظ سے کراچی سے آگے ہیں۔
پاکستان رینجرز کی 2014 کی رپورٹ کے مطابق پانچ سال اور چار ماہ کے عرصے میں سب سے زیادہ آپریشن 2018 میں کیے گئے، سال 2013 میں دہشت گردی کے 57 واقعات درج کیے گئے ہیں۔
2014 میں یہ بڑھ کر 66 اور 2015 میں 199 ہوگئی۔ واقعات کی تعداد 2016 میں کم ہو کر 16 اور 2017 میں صفر ہوگئی، تاہم 2018 میں دو واقعات ریکارڈ کیے گئے۔
ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ آپریشن کے پہلے سال 965 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔
2014 میں یہ کم ہو کر 602، 2015 میں 199، 2016 میں 89، 2017 میں 45 اور 2018 میں 9 رہ گئی۔
اسی طرح بھتہ خوری کے کیسز میں بھی کمی ہوئی۔ 2013 میں کل 1,524 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ 2014 میں کم ہو کر 899، 2015 میں 303، 2016 میں 101، 2017 میں 65 اور 2018 میں 51 ہوگئے۔

اغوا کے واقعات:
2014 میں 1132 سے کم ہو کر 2015 میں 174 ہوگئے۔ 2016 میں 26،
2017 میں 18 اور 2018 میں 13 واقعات ریکارڈ ہوئے۔
مزید کہا گیا کہ سندھ رینجرز نے 13,224 ہتھیار اور مختلف ہتھیاروں کی 876,083 گولیاں قبضے میں لیں۔ ان میں 7 آر پی جی راکٹ لانچرز، 139 بھاری اور ہلکی مشین گنیں، 1431 کلاشنکوف اور سب مشین گن، 662 شارٹ گن، 977 ریپیٹرز، 1584 رائفلیں، 8378 پستول اور ریوالور شامل ہیں۔
مجموعی طور پر 15,838 آپریشن کیے گئے۔ مجموعی طور پر 11,619 دہشت گردوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کو پولیس کے حوالے کیا گیا اور 2,210 دہشت گرد، 1,881 ٹارگٹ کلرز، 852 بھتہ خور اور 227 اغوا کاروں کو گرفتار کیا گیا۔ مجموعی طور پر 169 مغوی افراد کو بازیاب کرایا گیا۔
شہداء کو خراج تحسین:
اگر ہم ملک و قوم کی بقا و سلامتی پر جاں نثاری کا تذکرہ کریں تو پاکستانی قوم وطنِ عزیز پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک اپنی مثال آپ ہے، جہاں قیام پاکستان کے حصول کی خاطر کئی لاکھ جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا، وہیں اس پاک سرزمین کو پُرامن و سرسبز بنانے میں بھی سیکیورٹی فورسز نے اپنی جانوں کو لٹانے سے دریغ نہ کیا، اسی اثناء میں ہم شہر کراچی کے امن کو بحال کرنے والی پاکستان رینجرز کی قربانیوں کو بھی فراموش نہیں کرسکتے، پاکستان رینجرز کے کراچی میں مختلف آپریشنز اور ڈیوٹی پر تعیناتی کے دوران کنتے ہی گمنام جوانوں نے اس مٹی کو اپنے لہو سے آراستہ کیا، ہم ان قربانیوں کو کبھی نہیں بھلا سکتے۔ اسی تناظر میں شاعر لکھتے ہیں کہ:
وہ لوگ جنہوں نے خوں دے کر اس چمن کو زینت بخشی ہے
دوچار سے دنیا واقف ہے گم نام نہ جانے کتنے ہیں
حرف آخر:
اس تحریر کو لکھنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موجودہ دور Fifth Generation War کا ہے اور اس تناظر میں اندرونی و بیرونی ملک دشمن طاقتیں عوام اور سیکیورٹی اداروں کے درمیان خلع پیدا کرنا چاہتے ہیں، تاکہ اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہوسکیں۔ اب ہمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان مخالف طاقتوں کے شر سے بچتے ہوئے اپنے سیکیورٹی اداروں کی قدر و منزلت کو سمجھیں، کیونکہ انہیں کی انتھک محنت، کاوشوں اور قربانیوں کے مرہونِ منت ہی ہم اس ملک میں آزادی کے ساتھ بلاخوف و خطر زندگی بسر کررہے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ اس تحریر کے مطالعے کے بعد قارئین کو پاکستان رینجرز کی ایک نئی تصویر نظر آئے گی اور ہم سب یہ عہد کریں گے کہ جس طرح ہمارے سیکیورٹی ادارے مشکل اوقات میں اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنے سے گھبراتے نہیں، اسی طرح ہم بھی بحیثیت پاکستانی اپنی ذمے داریاں پوری کریں گے اور ملک و قوم پر کسی بھی مشکل وقت پڑنے پر اپنا لہو پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔
بقولِ شاعر:-
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔