ترکی میں کیلے کھانا شامی پناہ گزینوں کو کیوں مہنگا پڑا؟

انقرہ: ترکی نے 7 پناہ گزین شامیوں کو کیلے کھانے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے پر واپس ان کے وطن بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق شام 2011 سے خانہ جنگی کا شکار ہے، داعش اور حکومتی اتحادی افواج کے درمیان ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری جھڑپوں میں 3 لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور آدھی آبادی بے گھر ہوگئی ہے۔
اس صورت حال میں شامیوں کی اکثریت نے ترکی میں پناہ لی ہے۔ ترکی کی اپنی معیشت اچھی نہیں اس پر بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی آبادکاری سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب ایک شامی پناہ گزین طالبہ نے درجنوں کیلے کھانے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کیں تو ترک شہریوں نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم یہاں ایک کیلا نہیں کھا پاتے اور آپ پناہ گزین ہونے کے باوجود درجنوں کیلے کھارہی ہیں۔
شامی طالبہ کی حمایت میں مزید پناہ گزینوں نے بھی ایسی ہی تصاویر شیئر کیں تو ترک شہریوں نے ان ویڈیوز اور تصاویر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ تم لوگ ہمارے وطن میں ہم سے زیادہ مزے میں ہو۔ ترکی میں کیلے کھانے کے بجائے اپنے ملک واپس جاؤ اور اپنی سرزمین کو بچانے کے لیے جنگ میں حصہ لو۔
یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ کہ ترکی کی حکومت کو مداخلت کرنا پڑی اور ایسے 7 شامی پناہ گزینوں کو حراست میں لے لیا گیا جنہوں نے سوشل میڈیا پر کیلے کھانے کی تصاویر ترک شہریوں کو اکسانے کے لیے شیئر کی تھیں۔
ترک حکام کا کہنا ہے کہ ان شامی پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور انہیں شام واپس بھیجنے کے لیے انتظامات کیے جارہے ہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔