لاڈلے نے قانون اور آئین کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا کسی نے نوٹس نہیں لیا، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہےکہ آئین نے اداروں کے درمیان پاور کی تقسیم کی، اس نے ریڈلائن لگادی کہ اس لائن کو کوئی عبور نہیں کرسکے گا مگر تاریخ کے واقعات ہم سب کے سامنے ہیں، آج آئین کا سنگین مذاق اڑایا جارہا ہے، آئین میں موجودہ مقننہ اور عدلیہ کے اختیارات کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال ہم اپوزیشن میں تھے، مختلف الخیال جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ ہم ریاست کو بچائیں، اتحادی جماعتوں نے ریاست کو بچانے کے لیے سیاست کو داؤ پر لگادیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ آج آئین کو بنے 50 سال ہوگئے، اس آئین نے اداروں کے درمیان پاور کی تقسیم کی، اس نے ریڈلائن لگادی کہ اس لائن کو کوئی عبور نہیں کرسکے گا مگر تاریخ کے واقعات ہم سب کے سامنے ہیں، آج آئین کا سنگین مذاق اڑایا جارہا ہے، آئین میں موجودہ مقننہ اور عدلیہ کے اختیارات کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ایک لاڈلہ کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوتا، چاہے کتنے بھی نوٹس ملتے ہیں اسے آناً فاناً رات کے اندھیرے میں مختلف عدالتوں میں ایکسٹینشن ملتی ہے، وہ عدلیہ کا مذاق اڑاتا ہے، ایک اسٹنگ خاتون جج کے بارے میں اس نے کیا کہا، وہ الفاظ زبان پر نہیں آسکتے، کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا، حقائق پر مبنی مقدمات بنے ہیں، جب ہم اپوزیشن میں تھے کس طریقے کے ساتھ اپوزیشن کے زعما اور ان کے خاندان کے لوگوں کے ساتھ سلوک کیا گیا، کس بددیانتی سے ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بناکر جیلوں میں بھجوایا گیا، کسی نے نوٹس نہیں لیا، قوم کی بیٹی کو باپ کے سامنے گرفتار کیا گیا تو کسی نے نوٹس نہیں لیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ آج ایک لاڈلہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر تکبر کے ساتھ بات کرتا ہے اور قانون اور آئین کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا کسی نے نوٹس نہیں لیا، یہ وہ حالات ہیں جس نے پاکستان کو اس نہج پر پہنچا دیا، یہ وہی لاڈلہ ہے جس نے اسی پارلیمنٹ پر دھاوا بولا تھا، اس کے حواریوں نے سپریم کورٹ کے باہر گندے کپڑے لٹکائے تھے، یہ وہی لاڈلہ نے جس نے ایوان کو گالیاں دی تھیں مگر اس کے باوجود تنخواہ جیب میں ڈالتا رہا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اس لاڈلے کی حکومت کے نتیجے میں آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا گیا، اس کو تار تار میں نے نہیں کیا، میری حکومت نے وعدہ خلافی نہیں کی، اس عمران نیازی نے معاہدہ کیا اور آئی ایم ایف کے معاہدے کی خلاف ورزی کی، پاکستان کو ڈیفالٹ نہج پر پہنچادیا، بڑی مشکل سے اس مخلوط حکومت نے شبانہ روز کوشش کرکے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا، آج بھی ہم آئی ایم ایف کے ساتھ انگیج ہیں لیکن جو وعدوں کی خلاف ورزیاں ہوئیں جس طرح ہم نے ملکی وقار کو مجروح کیا، آج آئی ایم ایف قدم قدم پر ہم سے گارنٹیز لیتا ہے جو ہم دے رہے ہیں۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ نے تمام شرائط مکمل کردی ہیں، اب کہا جارہا ہے کہ دوست ممالک سے کمٹمنٹ کو پورا کیا جائے، وہ بھی ہم کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کی حکومت کے نتیجے میں چار سالہ دور میں پاکستان کے قرضہ جات 70 فیصد بڑھ گئے، ایک نئی اینٹ نہیں لگائی، اینٹیں اکھاڑیں اور منصوبوں کو برباد کیا، دو کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کیا مگر مہنگائی افلاس کرپشن کے انبار لگادیے، ملک میں بڑے بڑے افلاطون اور ڈرامے باز آئے ہوں گے لیکن ایسا ٹوپی ڈراما نہیں آیا جس نے ملک کی بنیادیں ہلادیں، 11 ماہ گزرگئے ہم دوست ممالک کو راضی کرنے میں لگے ہیں، امریکا سے بہتر تعلقات کی کوشش کررہے ہیں جو تباہی خارجہ محاذ پر اس نے کی وہ بیان نہیں کرسکتا، کس طرح برادر ممالک کو ناراض کیا گیا، ہم اسی پر لگے ہوئے ہیں جو ہوگیا اسے جانے دیں، وہ ایک غیر سنجیدہ آدمی تھا، اس نے چین کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا، اب وہی عمران نیازی نے امریکا میں لابنگ کمپنیز ہائر کی ہیں، پاکستان کے خلاف ناٹک رچایا جارہا ہے، کچھ لوگوں سے بیانات دلوائے جارہے ہیں، جنہوں نے بیان دیا ان کو کیا حق پہنچتا ہے وہ ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کریں۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج قوم میں تقسیم در تقسیم ہے مگر اس لاڈلے کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، اس لاڈلے کو پاکستان سے کھلواڑ کی اجازت نہیں دی جائے گی، قانون اپنا راستہ لے گا، بہت ہوگیا پلوں سے پانی بہت بہہ گیا، کبھی کسی نے یہ منظر دیکھا کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکار اپنی قانونی ذمے داری ادا کرنے کے لیے جائیں تو ان پر پٹرول بم پھینک دیے جائیں، ان کی گاڑیوں کو آگ لگادی جائے، کوئی پوچھنے والا نہ ہو، ضمانتوں پر ضمانتیں ملیں، یہ جنگل کا قانون ہے، یہ آئین کو دفن کرنے کی مذموم سازش ہے، کیا ایوان اور قوم اس کی اجازت دے گی۔
انہوں نے کہا کہ آج نیازی دہشت گردوں کو اپنی شیلڈ بنارہا ہے، یہ بات ہوا میں نہیں کررہا، ویڈیوز اور تصویریں دیکھیں اس کے گھر میں دہشت گرد دندنارہے ہیں، کوئی دیکھنے والا نہیں، ضمانتوں پر ضمانتیں دی جارہی ہیں، ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا، ایوان سے گزارش ہے کہ ان معاملات کا فی الفور نوٹس لینا ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ 29 نومبر کو پاکستان کے نئے سپہ سالار کا چناؤ ہوا، بلاخوف اس بات کی تردید کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پوری مشاورت، کابینہ اوراس سے ہٹ کر پوری مشاورت کے ساتھ میرٹ پر یہ فیصلہ کیا، مجھے جو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کابینہ سے مشاورت کرتا ہوں، باقی اداروں کو بھی کابینہ میں جاکر فیصلے کرنے چاہئیں، یہ کام ہم کررہے ہیں تو باقی کیوں نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ جنرل عاصم منیر کو سپہ سالار اور جنرل ساحر کو چیئرمین جوائنٹ چیفس بنایا جائے، یہ دونوں فیصلے 100 فیصد میرٹ پر تھے، سب سے سینئر موسٹ عاصم منیر اور پھر جنرل ساحر ہیں، مکمل میرٹ پر فیصلہ ہوا، وہ پروفیشنل ہیں انہیں اعزازی شمشیر ملی ہے، ان کا کیریئر اچیومنٹ سے بھرا ہوا ہے، سپہ سالار حافظ قرآن بھی ہیں، پی ٹی آئی کے ٹرولرز لندن میں جو وحشیانہ زبان استعمال کررہے ہیں ہماری افواج کی لیڈر شپ پر یہ کبھی 75 سال میں کوئی سوچ نہیں سکتا تھا، آج بھارت سے زیادہ کون خوش ہوگا، ہمارے دشمنوں کو اور کیا چاہیے، کس طرح لسبیلہ کے شہدا کے بارے میں باتیں کی گئیں بتا نہیں سکتا، جس نے پاکستان بنایا آج دشمن سے بڑھ کر اس پر وار ہورہے ہیں ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں، اس سے پہلے دیر ہوجائے ایوان کو اس پر ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ابھی ایک آڈیو آئی ہے جس میں سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں چیزیں سامنے آئی ہیں، چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ آڈیو کا فارنزک کروائیں، پوری قوم کو پتا چلنا چاہیے کہ ججز سے متعلق آڈیو سچی ہے یا جھوٹی، اگرججز سے متعلق آڈیو سچی ہے تو سچ سامنے آنا چاہیے۔
شہباز شریف نے کہا کہ واٹس ایپ کے ذریعے ججوں کو تبدیل کیا جاتا ہے، جاننا چاہتا ہوں اعلیٰ عدالتوں کے کتنے جج کرپشن پر نکالے گئے ہیں، ہمارے ہاتھ باندھ کرعدالتوں میں کھڑا کیا جاتا تھا، تحکمانہ انداز میں ڈکٹیٹ کیا جاتا تھا، اگریہ نظام انصاف ہے تو ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ترازو کا جھکاؤ ایک طرف چلا گیا ہے، رات 11 بجے عدالتیں کھلتی ہیں اور ضمانتیں ہوجاتی ہیں، صبح، شام عدالتیں کھلتی ہیں اورضمانتیں مل جاتی ہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔