پی ڈی ایم کی ڈوبتی کَشتی

ثناء غوری

لگ رہا تھا کہ جوش وجذبے سے بھری پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یا پی ڈی ایم ایسا طوفان اٹھانے والی ہے کہ حکومت کا سنبھلنا مشکل ہوجائے گا، طوفان تو اٹھا لیکن پی ڈی ایم کے اندر ہی، جس کی وجہ سے پی ڈی ایم کی کشتی بھنور میں پھنسی اور ڈوبتی نظر آتی ہے۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف قائم ہونے والے اس سیاسی اتحاد کا مستقبل کیا ہے، لیکن اس کا جو حال ہمارے سامنے ہے وہ تقاضا کرتا ہے کہ اس کا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے قیام کی محرک پیپلزپارٹی تھی، جس کی قیادت آصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہے۔ کون نہیں جانتا کہ زرداری صاحب کا طرزسیاست ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے یکسر الگ ہے۔ وہ مزاحمت اور ٹکراؤ کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ شطرنج کے کھلاڑی کی طرح چالیں چلتے ہیں اور مُہروں کے ذریعے ہرانے پر یقین رکھتے ہیں، ان کے لیے جیت بس یہ ہے کہ وقت، پیسے اور لوگوں کا صحیح استعمال کرکے ایسی پوزیشن پر آجائیں کہ حکم راں ہوں یا مقتدر قوتیں ان کے ساتھ سمجھوتے اور سودے بازی پر راضی ہوجائیں۔ آصف زرداری نے یہی کیا، جس پر کسی کا بھی حیران ہونا حیرت انگیز ہے۔ حیرانی تو نوازشریف اور مولانا فضل الرحمٰن پر ہے کہ انھوں نے یہ کیسے سمجھ لیا تھا کہ آصف زرداری اور پیپلزپارٹی ان کے سخت گیر موقف اور تندوتیز بیانیے کے ساتھ چل پائیں گے۔ شاید یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ عدالتوں کے مقدمات نیب کے اقدامات کا گھیرا حزب اختلاف کی جماعتوں کے لیے ایسی زنجیر ثابت ہوگا جس میں وہ بندھی رہیں گی، لیکن اب لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے اپنے لیے راستہ نکال لیا ہے اور وہ جس گرفت میں تھی وہ خاصی ڈھیلی ہوچکی ہے۔
پی ڈی ایم کی اہم ترین رکن جماعتوں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی میں فاصلوں کی بات تو بہت دنوں سے کی جارہی تھی، لیکن گزشتہ چند روز میں یہ فاصلے اتنی تیزی سے سامنے آئے اور اس اتحاد کی جماعتیں یوں ایک دوسرے کے مقابل آئیں کہ وہ تجزیہ کار بھی حیران رہ گئے جو پی ڈی ایم میں دراڑیں پڑنے کا امکان باربار ظاہر کرچکے تھے۔ سینیٹ کے انتخابات تک لگتا تھا کہ حزب اختلاف کی جماعتیں دیوار کی طرح ایک دوسرے سے جُڑی کھڑی ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کا سینیٹ کی اسلام آباد کی نشست پر کام یاب ہونا پی ڈی ایم کے باہمی اتحاد کا مظہر بن کر سامنے آیا، اور کہا جانے لگا کہ یہ پی ڈی ایم میں آصف زرداری کے اس بیانے کی جیت ہے جس کے مطابق حکومت کے خلاف جنگ پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے اور اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکرائے بغیر لڑی جائے۔ تاہم چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں جب حزب اختلاف اپنے زیادہ ووٹ رکھنے کے باوجود اپنے سات ووٹ مسترد ہونے کی وجہ سے ہار گئی تو اس سے ایک بار پھر نوازشریف کے بیانے کو تقویت ملتی نظر آئی، اور یہ خیال زور پکڑ گیا کہ اب پیپلزپارٹی پوری شدت کے ساتھ نوازشریف کے بیانیے کے ساتھ کھڑی ہوجائے گی۔ لیکن جوا ہوا وہ اس کے برعکس تھا۔ پی ڈی ایم کے اجلاس میں جو لانگ مارچ کی تاریخ اور تفصیلات طے کرنے اور ایوانوں سے مستعفی ہونے کے ایجنڈے پر منعقد ہوا تھا، آصف زرداری نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے سے صاف انکار کردیا۔ تکرار اور اصرار پر انھوں نے
 نوازشریف کو پاکستان واپس آکر تحریک کی قیادت کرنے کا مشورہ دیا تو وہ طعنہ بن کر ن لیگ کے دل کو لگا۔ اس کے بعد دونوں طرف ایک دوسرے سے ناراضگی گرماگرم بیانات کے ذریعے سامنے آئی۔ مولانا فضل الرحمٰن ابھی اس حدت کو کم کرنے اور ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو دوبارہ قریب لانے کے لیے جتن کر ہی رہے تھے کہ پیپلزپارٹی نے یوسف رضا گیلانی کو اے این پی، جماعت اسلامی اور دو آزاد ارکان کی مدد سے سینیٹ میں قائدحزب اختلاف منتخب کرواکر واضح کردیا کہ اسے اب پی ڈی ایم کی ضرورت نہیں رہی۔ یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف مقرر کروانے کے لیے درخواست اسی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو دی جسے پیپلزپارٹی حقیقی معنی میں منتخب چیئرمین نہیں مانتی اور اس کا موقف ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں یوسف رضا گیلانی کی کام یابی کو چُرایا گیا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں قائدحزب اختلاف بنوانے کے لیے صادق سنجرانی کو درخواست دے کر پیپلزپارٹی نے اپنے مذکورہ موقف پر سوالیہ نشان لگادیا ہے اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف اپنی اخلاقی پوزیشن کھودی ہے، لیکن آصف زرداری نے ثابت کردیا ہے کہ پاکستانی سیاست میں سیاسی گُروں اور حربوں کا ان سے بڑا ماہر کوئی نہیں۔ یوں بھی ہماری سیاست میں اخلاقی اصول، دیانت اور صداقت کی کیا حیثیت ہے اس سے سب واقف ہیں۔ اس حوالے سے ن لیگ کا موقف سامنے آچکا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے راہ نما احسن اقبال کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کے اس اقدام سے پی ڈی ایم کے اتحاد کو دھچکا لگا ہے۔ واقعی یہ ایک دھچکا ہے، بہت زور کا دھچکا، جس نے پی ڈی ایم کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔
ہمارے ملک میں سیاسی اور انتخابی اتحادوں کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ جگتو فرنٹ سے ایم آر ڈی تک اور پھر نوازشریف اور بے نظیر کے ادوار حکومت میں قائم ہونے والے حزب اختلاف کے اتحادوں تک۔ یہ سارے اتحاد جس حکومت کے خلاف بنے اس کے خاتمے کے بعد ہی ٹوٹے، لیکن پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا معاملہ مختلف لگ رہا ہے۔ لگتا ہے یہ اتحاد قائم رہا بھی تو پیپلزپارٹی جیسی بڑی اور نمایاں جماعت کی رخصتی یا اس کے اخراج کے باعث بہت کم زور ہوجائے گا۔ اور اگر پیپلزپارٹی جس راہ پر گامزن ہے اس کے ہوتے ہوئے اسے اتحاد میں شامل رکھا گیا تو یہ عمل پی ڈی ایم اخلاقی طور پر ہی شکست خوردہ نظر نہیں آئے گی اسے اندرونی خلفشار بے عمل رکھنے کے ساتھ کم زور بھی کرتا رہے گا۔ لیکن سندھ کی نمائندہ جماعت پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم سے ناتا توڑ لیا تو یہ اتحاد سندھ میں غیرموثر ہوجائے گا اور اس کی قومی حیثیت بھی برقرار نہیں رہ پائے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ن لیگ کی قیادت اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن خون کے گھونٹ پی کر پیپلزپارٹی کو برداشت کر رہے اور اس سے تصفیے کے موڈ میں نظر آتے ہیں۔ اسی لیے خبروں کے مطابق شہباز شریف نے اپنے فرزند اور پنجاب اسمبلی میں قائدحزب اختلاف حمزہ شہباز کو پیپلزپارٹی کے خلاف بیان بازی سے روک دیا ہے۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، یہ تو اونٹ کے بیٹھنے کے بعد ہی پتا چلے گا، لیکن یہ پتا چل گیا کہ ذاتی مفادات اور اپنے بچاؤ کے لیے بنائے جانے والے کسی اتحاد کا زیادہ دیر چلنا ممکن نہیں ہوتا۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔