پلاؤ سے بریانی تک کا سفر

افغان پلاؤ کس طرح برصغیر میں بریانی کی شکل اختیار کرتا گیا، جانیے اس تحریر سے

ثنا اللہ خان احسن

بریانی جنوبی ایشیا کی مقبول ترین ڈش ہے۔ مصالحوں کی مہک اور پیاز لہسن ادرک اور ٹماٹروں میں رچے بسے گوشت کی بوٹیاں گرما گرم بھاپ اڑاتے چاولوں کے ساتھ ۔۔۔ ساتھ میں دہی پودینے کا رائتہ اور کھیرے پیاز ٹماٹر کا سلاد۔ اہتمام کے ساتھ دسترخوان پررونق افروز بریانی اپنی خوشبو سے کھانے والوں کی بھوک اور اشتیاق بڑھا دیتی، کھاتے جاؤ پیٹ بھر جائے جی نہ بھرے کا معاملہ ہوتا۔ اس کے ذائقہ نے ایسا رنگ جمایا کہ کوئی دعوت بغیر بریانی کے دعوت نہیں مانی جاتی ہے۔ بچے کی پیدائش پر چھلہ، چھٹی، عقیقہ ، شادی بیاہ کون سی تقریب ہے جس کے کھانے میں بریانی نہ ہو، یہاں تک کہ مرنے کے بعد زیارت اور چہلم میں بھی بریانی ہی مرنے والے کی مغفرت کا سہارا بن گئی ہے۔ بریانی کہاں سے شروع ہوئی اور کس طرح موجودہ شکل و صورت کو پہنچی، آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

بریانی کا نام :

اس سلسلے میں دو باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ بریانی فارسی لفظ برنج بمعنی چاول سے نکلی ہے۔ دوسرا خیال یہ ہے کہ یہ فارسی لفظ بریاں سے نکلی ہے جس کا مطلب بھوننا یا گھی میں چرب کر کے کسی چیز کو تلنا۔ بریانی میں چونکہ گوشت کو مصالحوں کے ساتھ تل کر چاولوں میں شامل کیا جاتاہے اس لئے اسکا نام بریانی پڑگیا۔

پلاؤ:

ایک تاریخ دان کے مطابق آج سے کوئی چار ہزار سال قبل وسط ایشیا کے لوگوں نے چاولوں میں مختلف جانوروں جیسے کہ گائے، بھیڑ بکری اور مرغ وغیرہ کا گوشت شامل کر کے پکانا شروع کیا اور یہ ڈش پلاؤ کہلائی۔ جب مغلوں نے ہندوستان کا رخ کیا تو وہ اپنے ساتھ پلاؤ بھی برصغیر میں لائے۔ لیکن ابتدا میں یہ پلاؤ محض گوشت چاول اور خشک میوہ جات پر مشتمل ہوتا تھا، جیسا کہ آجکل کا افغانی پلاؤ۔ بکرے کے گوشت کا پلاﺅ برصغیر کے پکوانوں کی تاریخ میں ایک مقبول پکوان رہا ہے اور اب بھی اسے بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ پلاؤ بنانے کے لئے بکرے کے گوشت، گرم مصالحوں اور ثابت دھنیا و سونف کو لہسن ادرک اور پیاز کے ساتھ کے ساتھ ابال کر یخنی بنائی جاتی ہے۔ پھر اس یخنی میں چاول پکا کر تلی ہوئی براؤن پیاز اور زعفران اور کیوڑے کے ساتھ دم دیا جاتا ہے۔ یہ پکوان عید الاضحیٰ کے موقع پر لگ بھگ ہر گھر میں تیار کیا جاتا ہے اور خصوصی مواقع پر بھی اسے بے حد پسند کیا جاتا رہا ہے۔ بریانی دہلی میں زیادہ مقبول تھی جبکہ لکھنؤ میں پلاﺅ، دونوں شہروں کے رہائشیوں کی چاول کے ان دونوں پکوانوں کے لیے ترکیب بھی اپنی تھی۔

بریانی:

جب مغلوں نے ایران سے راہ و رسم بڑھائے تو ایرانی مصالحے بھی پلاؤ میں شامل ہو گئے۔ فارسی کھانا پکانے کی ایک سب سے امتیازی تکنیک گوشت کو دہی میں بھگونا ہے۔ بریانی کے لیے پیاز، لہسن، بادام اور مصالحوں کو دہی میں شامل کرکے ایک گاڑھا پیسٹ تیار کیا جاتا ہے جس کی کوٹنگ گوشت پر کی جاتی ہے۔ ایک بار جب یہ عمل مکمل ہوجاتا ہے تو گوشت کو پکانے کے برتن میں منتقل کرنے سے قبل کچھ دیر تل لیا جاتا ہے، اس کے بعد پلاﺅ کو پکانے کی تکنیک پر عمل کیا جاتا ہے، چاولوں کو پکا کر گوشت پر ڈال دیا جاتا ہے، زعفران ملے دودھ کو چاولوں پر انڈیلا جاتا ہے تاکہ اس پر رنگ چڑھ سکے اور خوشبو پیدا ہو اور پھر پورے پکوان کو ڈھکن سے ڈھک کر کم کوئلوں کی آنچ پر پکایا جاتا ہے۔ بریانی درحقیقت فارسی پلاﺅ کا ہندوستانی مصالحہ دار روپ ہے۔

کچھ مورخین کا یہ خیال ہے کہ بریانی دوران جنگ فوجیوں کے لئے تیار کی جاتی تھی کہ جنگ کے دوران وقت اور جگہ کی کمی کے سبب ایک ایسی ڈش تیار کی جاتی تھی جو جلدی بن جائے اور ہر طرح کی غذائیت سے بھرپور ہو۔ اس سلسلے میں مغل بادشاہ شاہ جہاں کی اہلیہ ممتاز محل کو جدید بریانی تخلیق کرنے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے اس مکمل پکوان کا خیال پیش کیا اور تجویز دی کہ اسے جنگوں اور امن کے زمانوں میں فوجیوں کو کھانے کے لیے دیا جائے۔

بریانی کی اقسام:

یہ مانا جاتا ہے کہ چاولوں کو تلنے سے ان میں خشک میوے کا ذائقہ آجاتا ہے، جبکہ نشاستے کو جلانے سے چاولوں کی اوپری تہہ لیس دار ہوکر جم جاتی ہے۔ اس سے الگ ایک بکرے کی ران کو دہی، مصالحوں اور پپیتے میں رچایا جاتا ہے اور پھر نرم ہونے تک پکائی جاتی ہے۔ ایک بار جب گوشت پک جاتا ہے تو اسے ادھ پکے چاولوں پر تہہ کی صورت میں بچھا دیا جاتا ہے، پھر اس میں عرق گلاب کے چند قطرے، زعفران اور جاوتری کو ڈالا جاتا ہے، پھر ایک دیگ میں سیل بند کرکے ہلکی آنچ پر پکنے کے لیے اس وقت تک چھوڑ دیا جاتا ہے جب تک چاول مکمل طور پر پک اور پھول نہ جائیں، اور پیش کرنے کے لیے تیار نہ ہوجائیں۔ اب جب بریانی برصغیر میں مقبول ہوئ تو مختلف علاقوں میں اس کی مختلف اقسام بھی وجود میں آتی گئیں۔

حیدرابادی بریانی:

کہا جاتا ہے کہ نظام حیدراباد آصف جاہ اول کی خواہش تھی کہ ان کا اپنا ایک شاہی پکوان یا ڈش ہو۔ اس سلسلے میں چوٹی کے باورچیوں کی خدمات حاصل کی گئیں اور اس کا نتیجہ ہمارے سامنے چٹپٹی حیدرابادی بریانی کی صورت موجود ہے۔ پاکستان میں جو سندھی بریانی کی ترکیب ہے وہی انڈیا میں حیدرآبادی بریانی کی ہے۔ جس میں دہی ٹماٹر ہرا مصالحہ وغیرہ ملا کر گوشت کی تہہ لگاتے ہیں اور اوپر سے تلی پیاز چھڑکتے ہیں۔ بقیہ مرآدبادی بریانی جو گوشت کی یخنی بنا کر پکائی جاتی ہے، یعنی اس میں پہلے پلاؤ کی طرح یخنی بنائی جاتی ہے اور پھر مصالحے شامل کر کے بریانی بنائ جاتی ہے۔

لکھنوی بریانی جس میں کوئی مسالہ نظر نہیں آتا صرف گوشت اور رنگ لیکن ذایقہ پورا۔

کلکتہ بریانی جس میں آلو ڈالتے ہیں اور ویج پلاؤ جس میں پنیر اور سبزیوں کو دہی مصالحے میں بھون کر تہہ لگاتے ہیں۔ ویجیٹیرین اسے ویج بریانی کہہ کے تسلی کرتے ہیں حالانکہ ہوتا وہ پلاؤ ہے۔

میسوری بریانی، ٹیپو سلطان بریانی کو کرناٹک سے میسور لے گئے اور بریانی کی ایک نئ شکل میسوری بریانی وجود میں آئی۔

دہلی بریانی: جب مغلوں نے اپنا دارالسلطنت دہلی کو بنایا تو بریانی ایک شاہی پکوان تھا۔ شاہی باورچیوں نے بریانی میں مختلف مصالحہ جات کی آمیزش سے اس کو ایک ایسی ڈش بنا دیا کہ جس کی شہرت عوام سے نکل کر خواص تک پہنچ گئی۔ سن 1950 تک بریانی لوگ گھروں میں ہی تیار کرتے تھے اور یہ بازار میں بہت کم ملتی تھی۔ دہلی میں حضرت نظام الدین کی درگاہ پر لنگر میں تقسیم کی جانے والی بریانی کا اپنا ایک الگ رنگ اور ذائقہ تھا۔ اسی طرح دہلی کی جامع مسجد کے اطراف مختلف باورچی اور بھٹیارے بریانی تیار کر کے فروخت کرتے تھے۔ دہلی کی بریانی میں ٹماٹر کی جگہ دہی استعمال ہوتی ہے۔ دہلی کی بریانی دراصل بریانی کی سادہ اور خالص ترین قسم ہے۔

تہاری: بریانی کی شہرت اور ذائقے سے متاثر ہو کر کچھ لوگوں نے بغیر گوشت کی بریانی بھی بنانا شروع کردی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ان ہندوئوں کے لئے بنائی  گئی ہو جو گوشت سے پرہیز کرتے ہیں۔ عام طور پر تاہری میں آلو چاول اور مصالحے شامل کئے جاتے ہیں۔

سندھی بریانی: پاکستان میں مصالحے دار سندھی بریانی سب سے زیادہ مقبول ہے کہ جس میں پلاؤ کی یخنی کے ساتھ خوب مصالحہ دار گوشت، دہی ٹماٹر اور ہرے مصالحے کی تہہ لگا کر دم دیا جاتا ہے۔ اس میں آلو بھی شامل کئے جاتے ہیں۔ کراچی اور پاکستان کے مختلف شہروں میں یہی سندھی بریانی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہر جگہ دستیاب ہے۔ کراچی کی اسٹوڈنٹ بریانی کا اس شہرت میں بڑا ہاتھ ہے کہ آج سے کوئی تیس پینتیس برس قبل صدر کی ایمپریس مارکیٹ کے عقب میں ٹین کی چادروں کے شیڈ تلے یہ بریانی فروخت کے لئے پیش کی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دئے۔ آج نہ صرف پورے ملک میں اس کی فرنچائز ہیں بلکہ بیرون ممالک بھی بہت مقبول ہے۔ اس کے علاوہ بمبئی بریانی، کچے گوشت کی بریانی، میمنی بریانی، برمی بریانی، انڈا بریانی، کوفتہ بریانی وغیرہ ۔ غرض یہ کہ برصغیر کے ہر علاقے نے بریانی کو اپنے انداز میں ڈھال کر اس کا نام اپنے علاقے سے جوڑ دیا ہے۔

جھینگا اور مچھلی بریانی: نہ صرف گائے بھینس بھیڑ بکرے اور مرغ کے گوشت کی بریانی بنائی جاتی ہے بلکہ مچھلی بریانی اور جھینگا بریانی بھی اپنا رنگ جما چکی ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب شتر مرغ بریانی بھی دستیاب ہوگی۔ لیکن بریانی کا گوشت روکھا اور نرم ہونا چاہئے تاکہ اس میں مصالحوں کا ذائقہ اچھی طرح رچ بس جائے۔ بریانی کے بنانے میں دوسرا سب سے بڑا اور اہم انتخاب چاولوں کا ہے۔ بریانی عام طور پر باسمتی چاولوں سے بنائی جاتی ہے تاکہ پکنے کے بعد چاول کھلے کھلے رہیں اور ان کی مہک محسوس ہو۔

بریانی کی بین الاقوامی مقبولیت: بریانی اب نہ صرف پاکستان بلکہ مشرق وسطیٰ، امریکہ اور یورپ کے تقریبا” ہر شہر میں دستیاب ہے۔ ہمارے دوست چینی بھی بریانی سے پورا انصاف کرتے ہیں۔ یہ ایک بین الاقوامی ڈش بن چکی ہے۔ لیکن اس کی تخلیق کا سہرا یقینا” مغلوں سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ ایک زمانہ تھا کہ جب لوگ اچھی بریانی کے لئے شادی بیاہ یا دعوتوں کا انتظار کرتے تھے لیکن اب سینکڑوں ریسٹورنٹس بہترین دیگی بریانی ایک فون کال پر آپ کو گھر بیٹھے مہیا کر دیتے ہیں۔

یہ تلخ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اصلی بریانی کا لازمی جزو زعفران، کیوڑہ، جائفل جوتری اور دیگر کچھ مصالحے اب بریانی میں نہیں ڈالے جاتے۔ ان گنت ہوٹلیں بریانی کے اشتہار سے چمک اٹھی ہیں مگر اس میں وہ مزہ نہیں۔ گوشت کی دو چار بوٹیاں ، چاول تو بریانی کے ہوتے ہیں لیکن خوشبو شاید ہی ہو۔ نہ اب وہ باذوق لوگ رہے اور نہ بریانی کا ذائقہ رہا۔ جب تک انڈیا سے ہجرت کر کے آنے والے خاندانوں کی سگھڑ خواتین حیات رہیں وہ بریانی کو اس کی اصل ترکیب اور ذائقے کے ساتھ بناتی رہیں اور کچھ نے یہ فن و ترکیب اپنی آنے والی نسل کو سونپ دی۔ اب نہ وہ گنگا جمنی تہذیب کی قوس قزح ہے نہ وہ لوگ تو صاحب باورچی کی بریانی میں مزہ کیسے آئے گا وہ لذت کہاں سے آئے گی جو اصلی بریانی کی شان امتیاز تھی۔ لیکن بہرحال کراچی آج بھی بریانی میں نمبر ون ہے۔ تو پھر کیا خیال ہے ، ہو جائے ایک گرما گرم بریانی؟

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔