استاد نصرت فتح علی خان، دُنیائے موسیقی کا معتبر نام

عالمی شہرت یافتہ قوال استاد نصرت فتح علی خان کی برسی پر خصوصی تحریر

زاہد حسین

برصغیر میں قوالی کو فن کو موسیقی میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ صوفی کلام اور قوالی کا فن خطے میں کئی صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ مانے ہوئے قوال صوفیائے کرام اور بزرگانِ دین کے مزارات پر ان کا کلام اور دیگر نعتیہ کلام اور مناقب بڑی مہارت سے پیش کرکے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے اور مداحوں سے داد پاتے ہیں۔

پاکستان میں فنِ قوالی کو عروج پر پہنچانے والے فنکاروں میں استاد نصرف فتح علی خان کا نام سرِ فہرست ہے۔ آج اس عالمی شہرت یافتہ قوال کی چوبیسویں برسی منائی جارہی ہے۔ نصرت فتح علی خان 1948 میں فیصل آباد میں معروف قوال فتح علی خان کے گھر پیدا ہوئے۔ قوالی کی تعلیم اپنے والد ہی سے حاصل کی۔ نصرت فتح علی خان نے قوالی اور لوک موسیقی کے فن میں اتنی مہارت حاصل کی کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنی پہچان آپ بن گئے۔ نصرت فتح علی خان نے اپنے فن کی آغاز خاندان کے دیگرافراد کی پہلے سے گائی ہوئی قوالیوں سے کیا۔ ان کے فن کا دور کئی دہائیوں پر محیط رہا۔ ابتدائی دو دہائی تک ان کے کلام کی رسائی صوفی موسیقی کے شائقین تک محدود رہی، لیکن ’’حق علی مولا علی‘‘ اور’’دم مست قلندرمست مست‘‘ نے انہیں نوجوانوں میں بھی زبردست مقبولیت بخشی۔ ان قوالیوں کی مقبولیت کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اسے مشرقی دھن میں مغربی سازوں کے امتزاج سے گایا گیا تھا۔ اس قوالی کی شہرت برصغیر سے نکل کر یورپ اور دیگر دنیا تک بھی پہنچ گئی اور یوں قوالی کو جدید رنگ دینے والے استاد نصرت علی خان ایک عالمگیر قوال بن گئے۔

1995 میں جرائم کے موضوع پر ریلیز ہونے والی امریکی فلم "ڈیڈ مین واکنک” میں ڈائریکٹر ٹم رابنز نے ان کا پہلا شاہکار شامل کیا تو امریکی بھی جھوم اٹھے۔ اس فلم میں سین پین، رابرٹ پروسکی، دیمنڈ جے بیری، آر لی ارمے اور اسکاٹ ولسن نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ فلم کی موسیقی سے یہ تمام اداکار ان کے گرویدہ ہوگئے۔ ڈیڈ مین واکنگ کے بعد نصرت فتح علی خان نے ہالی ووڈ کی ایک اور فلم ’’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ‘‘ کی موسیقی بھی ترتیب دی۔ موسیقی کے بے تاج بادشاہ نے اپنی زندگی میں لاتعداد قوالیاں، کافیاں اور دیگر صوفی کلام پڑھا۔ ان کی قوالیوں کے 125 سے زائد آڈیو البم جاری ہوئے، اس قدر قوالیوں کے والیم اس سے قبل کسی قوال کے ریلیز نہیں ہوئے تھے، جس کی وجہ سے ان کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل کیا گیا۔

استاد نصرت فتح علی خان کو پاکستان کو عالمی سفیر برائے فن بھی مانا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے فن موسیقی کی روحانی کیفیات کے ذریعے پوری دنیا کو اپنا مرید بنائے رکھا اور پاکستان کو بہترین شناخت عطا کی۔ عالمی سطح پر انہیں وہ مداحوں نے وہ پیار دیا جو کسی دوسرے فنکار کا نصیب نہ ہوا تھا۔ یہ بات بلاشبہہ کہی جاسکتی ہے کہ استاد نصرت فتح علی خان لاجواب فنکار تھے، جو موسیقی کی لامحدود سمجھ رکھتے تھے۔

استاد نصرت فتح علی خان نے متعدد فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی اور بعض فلموں میں اپنی آواز کا جادو بھی جگایا۔ ان کی خدمات پر 1987 میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمگہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ اس کے علاوہ انہوں نے نگار ایوارڈ سمیت متعدد ملکی اورغیرملکی ایوارڈز حاصل کیے۔ 1987 میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس، نگار ایوارڑ سمیت متعدد ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

عالمی سطح پر معروف اس فنکار نے کئی برس بیماری میں گزارے۔ وہ گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔ اس مرض سے طویل جنگ کرتے کرتے باالآخر 16 اگست 1997 کو وہ یہ جنگ ہار گئے اور موسیقی کے باغ میں چہکنے والا یہ بلبل ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا۔ اپنے انتقال کے وقت ان کی عمر صرف اڑتالیس برس تھی۔ گو کہ انہیں دنیا سے گزرے آج چوبیس برس بیت چکے ہیں لیکن ان کے مداح آج بھی ان کی یاد کو تازہ رکھے ہوئے ہیں اور ان کی مدھر آواز اور موسیقی دنیا بھر میں اپنے شائقین کو مسحور کیے ہوئے ہے۔

 

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔