چھوٹے سے جانور نے خاتون کو کیسے یرغمال بنایا؟

کرائسٹ چرچ: نیوزی لینڈ کے علاقے اوٹاگو میں گزشتہ دنوں اُس وقت عجیب و غریب صورتِ حال پیدا ہوگئی جب ایک خاتون نے پولیس اسٹیشن فون کرکے شکایت کی کہ ایک چھوٹے سے جانور ’پوسم‘ نے انہیں پچھلے کئی گھنٹوں سے یرغمال بنایا ہوا ہے اور وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتیں۔
پوسم، جسے اپوسم بھی کہا جاتا ہے، ایک چھوٹا سا بے ضرر ممالیہ جانور ہے جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتا اور نوزائیدہ بچوں کو اپنے پیٹ پر بنی ایک قدرتی تھیلی میں رکھتا ہے۔
یہی وجہ تھی اس فون کال پر پہلے تو پولیس اسٹیشن والوں کو یقین نہیں آیا لیکن خاتون کے بار بار اصرار پر ایک ڈیوٹی آفیسر کو ان کے بتائے ہوئے پتے پر بھیج دیا گیا۔
پولیس کی گاڑی دیکھ کر وہ خاتون اپنے گھر کی کھڑکی پر آگئیں اور ڈیوٹی آفیسر کو قریب بلاکر اس سے بات کرنے لگیں۔
ابھی یہ بات جاری ہی تھی کہ افسر کو اپنی ٹانگ پر کسی جانور کے پنجوں کی سرسراہٹ محسوس ہوئی۔ اس نے نیچے دیکھا تو واقعی وہ ایک اپوسم تھا جو افسر پر حملہ کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
اس نے فوراً ہی تیز روشنی والی ٹارچ سے اپوسم کو تھوڑی دیر کے لیے سُن کردیا اور پکڑ کر اپنے ساتھ لائے ہوئے پنجرے میں بند کردیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اپوسم کو اس خاتون کے گھر سے کئی کلومیٹر دُور جنگل میں بحفاظت چھوڑ دیا گیا ہے اور امید ہے کہ اب وہ انہیں تنگ نہیں کرے گا۔

خاتون نے مقامی اخبار کے نمائندے کو بتایا کہ یہ واقعہ صبح پیش آیا جب وہ اپنے گھر سے یونیورسٹی جانے کے لیے نکلی تھیں۔
اس سے پہلے کہ وہ اپنی کار کا دروازہ کھولتیں، نامعلوم سمت سے آئے ہوئے اپوسم نے ان پر حملہ کردیا۔
وہ خوف زدہ ہو کر گھر میں بھاگ گئیں اور دروازہ بھی اندر سے بند کرلیا۔ اس کے بعد انہوں نے وقفے وقفے سے باہر نکلنے کی کوشش بھی کی لیکن ہر بار اپوسم حملہ کردیتا اور انہیں دوبارہ گھر میں بند ہونا پڑ جاتا۔
سنسان علاقے میں گھر ہونے کی وجہ سے وہ کسی پڑوسی کو بھی آواز دے کر مدد کے لیے نہیں بلاسکتی تھیں لہٰذا انہوں نے پولیس اسٹیشن فون کردیا۔
اور اس طرح کئی گھنٹے ایک اپوسم کے ہاتھوں ’حبسِ بے جا‘ میں رہنے کے بعد انہیں آزادی نصیب ہوئی۔

نیوزی لینڈ کی پولیس بھی حیران ہے کیونکہ اپوسم ایک پُرامن اور آرام سے رہنے والا جانور ہے، جو کسی پر حملہ نہیں کرتا۔
البتہ اس کے عجیب و غریب طرزِ عمل کے بارے میں خیال ہے کہ شاید یہ کسی کا پالتو تھا یا پھر حال ہی میں اپنی ماں سے الگ کیا گیا تھا۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔