ویمن کرکٹ سمیت خواتین کے کھیلوں پر پابندی نہیں، افغان طالبان

کابل: افغانستان میں ویمن کرکٹ سمیت خواتین کے کھیلوں پر باضابطہ پابندی لگانے کی افغان طالبان نے تردید کی ہے۔
الجزیرہ کے مطابق اگست میں افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد سے کھیلوں کا مستقبل بے یقینی کا شکار ہے۔ سیکڑوں کھلاڑی خاص طور پر خواتین کھلاڑی یا تو بیرون ملک چلے گئے یا پھر اسپورٹس سے دُور رہ کر خاموشی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔
ستمبر میں افغان ثقافتی کمیشن کے نائب سربراہ احمد اللہ واثق نے بھی خواتین کرکٹ سمیت دیگر کھیلوں میں حصہ لینے پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں کہ خواتین کرکٹ کھیلیں، کرکٹ میں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، جہاں جسم اور چہرہ نہ چھپایا جاسکتا ہو اور اسلام ایسے لباس کی اجازت نہیں دیتا، جس سے بے پردگی ہو۔ یاد رہے کہ 2001 میں امریکی حملے سے قبل افغانستان میں طالبان کی حکومت میں اس وقت بھی خواتین کے کھیلوں پر مکمل پابندی تھی۔
الجزیرہ نے افغان کرکٹ بورڈ کے نومنتخب چیئرمین عزیز اللہ فضلی سے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ان کی طالبان حکومت کے اعلیٰ حکام سے بات ہوئی ہے، جنہوں نے کہا کہ سرکاری طور پر خواتین کے کھیلوں خاص طور پر ویمن کرکٹ پر کوئی پابندی نہیں لگائی، ہمیں خواتین کے کھیلوں میں حصہ لینے سے کوئی مسئلہ نہیں۔
عزیز اللہ فضلی نے بتایا کہ انہیں طالبان نے خواتین کو کرکٹ کھیلنے سے روکنے کا حکم نہیں دیا، ہماری 18 سال سے خواتین کی کرکٹ ٹیم ہے، اگرچہ وہ محدود پیمانے پر ہے، تاہم ہمیں اس معاملے میں اپنے مذہب اور ثقافت کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے، اگر خواتین شائستہ لباس پہنیں تو ان کا کھیلوں میں حصہ لینا معیوب نہیں، اسلام میں خواتین کو نیکر پہننے کی اجازت نہیں، جیسا کہ دوسری ٹیمیں پہنتی ہیں، خاص طور پر فٹ بال میچ میں، لہٰذا ہمیں اس چیز کا خیال رکھنا ہوگا۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔