چائے کی چسکی اور لہجے میں مٹھاس

چائے اور میرا چولی دامن کا ساتھ ہے، چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی۔ میں جب پاکستان میں تھا تو یار لوگوں کا خیال تھا کہ فواد کے گھر میں پانی کی ٹنکی کے ساتھ چائے کی ٹنکی بھی ہونی چاہیے کہ نل کھولے اور چائے حاضر۔
چائے کی یہی چاہت مجھے برطانیہ لے آئی۔ برطانیہ وہ ملک ہے جس نے چائے کو اپنی مقامی پیداوار نہ ہونے کے باوجود ایسے اپنایا ہے جیسے برصغیر کے رہنے والوں نے برطانیہ والوں کو اپنا لیا تھا۔ یہاں ایک دن میں ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ کپ چائے روزانہ پی جاتی ہے۔ سالانہ بنیادوں پر اس تعداد کو جاننے کے لیے مندرجہ بالا تعداد کو آپ تین سو پینسٹھ سے ضرب دے سکتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے لیکن۔۔۔ میں نہیں بتاؤں گا۔
برطانوی سماج میں چائے کو متعارف کرانے کا سہرا کیتھرین نامی ایک خاتون کے سر جاتا ہے جنہوں نے 1662 میں شاہ برطانیہ چارلس دوئم سے شادی کی اور اپنے ساتھ جہیز میں لوٹے برتن ہانڈی اور ایک دو ریاستوں کے ساتھ کثیر مقدار میں چائے کی پتی بھی لے آئیں۔ اب یہاں کے شاہی محل میں کوئی نکما جانتا ہی نہیں تھا کہ یہ کیا بلا ہے، سو ملکہ معظمہ بذات خود شاہی مطبخ کے سر پر کھڑی ہوکر ہدایات صادر کرتی گئیں اور چائے بنتی گئی۔۔ اب جو چائے بنی تو سارا کا سارا محل اس کی خوشبو سے مہک اٹھا اور جلد ہی چائے ناشتے کے لوازمات کا حصہ بن گئی۔
پہلے پہل چائے صبح کے وقت ہی پی جاتی تھی، یہاں تک کہ سنہ 1840 میں ایک اور شاہی خاتون ڈچس آف بیڈ فورڈ انا رسل نے ظہرانے اور عشائیے کے درمیان اٹھنے والی ہلکی ہلکی بھوک کا سدباب دوپہر کی چائے اور اس کے ساتھ ہلکے پھلکے لوازمات سے کیا اور جلد ہی یہ سلسلہ شاہی محل سے ہوتا ہوا عوام میں سرایت کرگیا۔
یہی نہیں بلکہ تاج برطانیہ کا ہیرا کہلانے والے ہندوستان (برصغیر پاک و ہند) کے عوام نے تو چائے کو ایسے اپنایا کہ آج پوری دنیا میں اگر کہیں سب سے زیادہ چائے پی جاتی ہے تو پاک وہند ہی کا علاقہ ہے۔
چائے سے اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لیے حال ہی میں برطانیہ والوں نے مادرملکہ الزبتھ دوئم کے جنم دن کو "برٹش ٹی ڈے” سے موسوم کیا ہے۔ سو آج برطانیہ کے شہری چائے کا دن منارہے ہیں۔ ہم تو خیر سے یہاں تارکِ وطن ہیں لیکن چائے تو وہ دلربا ہے جس کے ہم اور برطانوی یکساں عاشق ہیں۔ پاکستان میں ایڈیٹر کی سیٹ پر بیٹھ کر چائے کی چسکیاں لینے میں اور یہاں نیشنل ہیلتھ سینٹر کے ویکسین سینٹر کی چوکیداری کرتے ہوئے چائے کی چسکیاں لینے میں جو فرق ہے، وہ یہ کہ وہاں پہلے طاہر نامی ایک جوان چائے پلاتا تھا، بعد میں دفتر تبدیل ہونے پر یہ ذمہ داری سجاد نامی پیون کے سر آگئی۔ یہاں ہر شخص اپنی چائے خود بناتا ہے اور خود ہی خود کو سرو کرتا ہے، لیکن ایک چیز جو ہمارے لوگ آج تک نہیں سمجھ پائے اور برطانوی اچھی طرح جانتے ہیں وہ چائے پینے والوں کے لہجے کی مٹھاس ہے۔
پاکستان میں ہمارے ایک سابق باس جو برطانیہ میں زندگی گزار کر گئے ہیں، اکثر چائے پیتے ہوئے کڑوی باتیں کیا کرتے تھے اور یہاں ابھی گزشتہ ہفتے ایک ٹیکنیکل فالٹ کے سبب مجھے دن کے کئی گھنٹے عمارت سے باہر مرمتی ٹیم کے ہمراہ گزارنے پڑے۔ سینٹر کی ادھیڑ عمربرطانوی نژاد ہیڈ (پاکستان کے صحافی دوست اسے ڈائریکٹر نیوز سمجھ لیں) بار بار اپنے گرم کمرے سے نکل کر اس جگہ کا چکر لگا رہی تھی۔ اس دن صبح سے برف پڑ رہی تھی۔ ٹھنڈ بے پناہ تھی، مرمتی کام کا جائزہ لینے کے بعد میں اور وہ ایک ساتھ اسموکنگ اسٹیشن پر کھڑے ہوکر سگی (سگریٹ) پینے لگے۔ سگریٹ ختم کرکے دونوں ہاتھ رگڑتے ہوئے وہ مہربان گویا ہوئی۔ اے ایشیائی ملک کے طلسماتی شہزادے! یہاں بہت ٹھنڈ ہے، تمھیں ابھی مزید وقت یہاں گزارنا ہے، میں تمھارے لیے گرم چائے بنا کرلاتی ہوں۔

 

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔