اتنی نفرتیں کیوں؟

تحریر: مشرف اسد

آج کل لوگوں میں برداشت ختم ہوتی جارہی ہے۔ چاہے وہ کوئی بھی شعبہ یا میدان ہو، ہم نے ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ ایک دوسرے کی باتوں کو سُننے کے بجائے مذاق بناتے ہیں۔ اختلاف رائے رکھنے کا مطلب ایسے ہی ہے جیسے کوئی جرم۔اپنی بات کہنا یا اپنے نظریات لوگوں کے سامنے رکھنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ آخر وجہ کیا ہے؟
پہلی بات تو یہ کہ کسی سے اختلافِ رائے رکھنا کچھ بُرا نہیں، بلکہ اختلاف سے تو حُسن ہے اور زندہ قوموں کی نشانی ہے، لیکن جب بات اختلاف سے مخالفت پر آتی ہے تو معاملات خراب ہونا شروع ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جب بھی کسی سے اختلافِ رائے رکھتے ہوئے قلم اُٹھاتے ہیں یا کوئی بات کرتے ہیں تو ہم اختلاف تو بھرپور کرتے ہیں لیکن جب کوئی ہم سے اختلاف رکھتا ہے تو ہم اسے برداشت نہیں کرتے، ہمیں یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ بھلا ہمارے نظریات سے بھی کوئی کیسے اختلاف رکھ سکتا ہے جب کہ اس کے برعکس ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم ان اختلافات کا جواب علمی دلائل سے دیتے نہ کہ جذبات سے۔
یہی وہ وجوہ ہیں کہ جب ہم بے دلیل باتیں جذبات سے کرتے ہیں تو اختلافات کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتے ہیں اور دوسرے کے لئے دل میں نفرت پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ سیاست کے میدان میں کس طرح (Assemblies) اکھاڑے کا منظر پیش کررہی ہوتی ہیں۔ اکثر سیاستدان خود سے کیے جانے والے اختلافات کے جواب میں نفرتوں اور برداشت کی تمام حدیں پار کررہے ہوتے ہیں۔ بات صرف اسمبلی کی ہی نہیں حکمرانوں سے لے کر عوام تک ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہماری اکثریت کا یہی حال ہے، اخلاقی اقدار ہم گنوا چکے ہیں ایسا نہیں کہ سب ایسے ہی ہے، ہمارے معاشرے میں زیرک و دانا لوگوں کی بھی کمی نہیں، لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے، ان کے نظریات ہم آنے والی نسل تک منتقل کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔
لگ بھگ تمام ہی شعبوں میں ہم اخلاقی اقدار کو نظر انداز کر بیٹھے ہیں اور حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔
اس تمام صورت حال کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہم دینی تعلیمات کو فراموش کرچُکے، دین اسلام کی سکھائی ہوئی اخلاقیات کی تعلیمات کو بھُلا چُکے ہیں۔
میں اور میرے والدین بھی قُربان رسولِ ﷺ کے اخلاقِ مبارکہ پر کہ جب طائف میں آپ ﷺ پر پتھر برسائے گئے تو کائنات کانپ اُٹھی تھی کہ جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا، یارسول اللّٰہ حکم فرمائیں یہ دو پہاڑ اُٹھاؤں گا اور ان لوگوں کو بیچ کچل دوں گا۔
آپ ﷺ نے فرمایا یہ نہ سہی ان کی نسل میں شاید کوئی ایمان لے آئے، میں لعنت کرنے نہیں آیا میں تو رحمت بن کر آیا ہوں۔
انسانیت کے ناتے ہر فرد کو اخلاقی اقدار کا پاس رکھنا چاہیے۔ اگر کوئی فرد آپ سے اختلاف رکھتا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ سے بدتمیزی کررہا ہے یا آپ کے عقائد و نظریات کا مذاق اُڑا رہا ہے، بلکہ اگر آپ ٹھنڈے دماغ سے اُس کی باتیں سُنیں تو اُس کی تمام گفتگو میں آپ کے لیے بھی کوئی فائدہ ہوسکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ کچھ باتوں میں آپ بھی غلط ہوں اور آپ کی اصلاح ہوجائے۔
میں یہاں پر انفرادی طور پر نہیں بلکہ اجتماعی طور پر بات کررہا ہوں۔ انفرادی طور پر دیکھا جائے تو نیک لوگ آج بھی موجود ہیں۔ جو معاملات کو غور سے دیکھتے ہیں، اختلافات کا علمی دلائل سے سامنا کرتے ہیں، اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتے ہیں، بات کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں، اس اُمت کے لیے درد رکھتے ہیں اور اس نوجوان نسل کی قدر کرتے ہیں۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے برداشت اور محبت پیدا کرے۔ ہمیں مشکلیں آسان کرنے والا بنائے اور ہمیں نیک لوگوں میں شامل فرمائیں۔
آمین!

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔