ہم انسانیت کی قدر و قیمت کو کب سمجھیں گے؟

نثار نندوانی

یہ 2017 کی بات ہے، جب دماغی طور پر مردہ ایک برازیلی خاتون کو مشینوں (وینٹیلیٹر) کے سہارے 123 دن تک زندہ رکھا گیا تا کہ اس کے پیٹ میں موجود جڑواں بچے اس دنیا میں آ سکیں۔

حمل کے دوران 21 سالہ خاتون اسٹروک ( دماغ تک خون کی رسائی کم یا بند ہو جانا) کی وجہ سے دماغی طور پر مردہ قرار دے دی گئی تھی، لیکن اس کے پیٹ میں موجود دو سے ڈھائی ماہ کے دو ننھے ننھے وجودوں کا دل دھڑکتا رہا۔ بچوں میں زندگی کی رمق پا کر اسپتال کے ڈاکٹروں نے تاریخی فیصلہ کیا کہ اس خاتون کو مشینوں کے سہارے زندہ رکھا جائے۔ 123 دن کے بعد یہ دونوں بچے ست ماہے ( سات ماہ کے بعد پیدائش) پیدا ہوئے۔ ان کی زندگی بھی خطرے میں تھی لیکن یہ بچے بھی اپنی ماں کی مانند زندگی سے لڑتے رہے اور ڈاکٹروں کی مدد سے اپنا وجود منوا لیا۔

ان بچوں کی پیدائش کے بعد ان کی ماں کا وینٹی لیٹر بند کر دیا گیا اور اس کے باقی کار آمد اعضا دوسرے مریضوں کو عطیہ کر دیے گئے۔ یہ میڈیکل کی تاریخ میں ایک تہلکہ خیز بات تھی کہ کوئی بھی حاملہ خاتون 123 دن دماغی طور پر مردہ رہ کر بچے پیدا کر جائے۔ اس میں بہت بڑا ہاتھ دوائیوں کی مسلسل سپلائی کا تھا جس نے مشینوں کے ذریعے ہی اس خاتون کو زندہ رکھا۔ ہر قسم کی میڈیکل ایمرجنسی کے لیے یہ خاتون پورے اسپتال کی پہلی ترجیح تھی۔

ایسا ہی ایک دوسرا واقعہ بھی برازیل ہی میں پیش آیا جب پہلی بار ایک مردہ جسم بیضہ دانی سے نکال کر ایک اور عورت میں ٹرانسپلانٹ کیا گیا اور ایک صحت مند بچی پیدا ہوئی۔ برازیل کے شہر ساؤ پالو میں 2016 میں 10 گھنٹے کے طویل آپریشن کے ذریعے بچہ دانی ایک 32 سالہ عورت میں ٹرانسپلانٹ کی گئی تھی کیونکہ وہ خاتون پیدائشی طور پر بچہ دانی سے محروم تھی۔ اس سے پہلے بھی بچہ دانی ٹرانسپلانٹ کرنے سے 11 بچے پیدا ہو چکے ہیں لیکن ان میں بچہ دانی عطیہ کرنے والی خواتین حیات تھیں۔ ان میں کچھ ایسی مائیں بھی شامل تھیں جنہوں نے بچہ دانی اپنی بیٹیوں کو عطیہ کی، لیکن مردہ عورت کی بچہ دانی کو دوسری عورت میں پیوند کاری کرنے کے ابتدا 10 تجربات ناکام ہو چکے تھے۔

حالیہ تجربے میں ایک 45 سالہ خاتون نے بچہ دانی عطیہ کی جن کی موت دماغ کی شریان پھٹنے کے نتیجے میں ہوئی تھی لیکن ان کی بیضہ دان ٹھیک تھی۔ ڈاکٹرز نے بیضہ دانی سے انڈے نکال کر ان میں والد کے سپرم داخل کیے اور انھیں بعد میں محفوظ کر دیا گیا ۔ڈاکٹرز نے اس خاتون کے مدافعتی نظام کو کمزور کرنے کے لیے ادویات دیں تاکہ یہ نظام ٹرانسپلانٹ کی گئی بیضہ دانی کو مسترد نہ کریں اور نہ ہی اس کے خلاف مزاحمت کریں۔ٹرانسپلانٹ کے چھ ہفتے بعد اس خاتون کو ماہواری آئی اور سات ماہ خاتون کی بیضے دانی میں منجمد کیے گئے انڈے رکھ دیے گئے اور 15 دسمبر 2017 کو ان کے ہاں 2.5 کلوگرام کا صحت مند بچی پیدا ہوئی۔

ساؤ پالو اسپتال داس کلینیکس کے ڈاکٹر ڈینی ایجزن برگ کا کہنا ہے کہ "زندہ ڈونرز کی بچہ دانیوں کا ٹرانسپلانٹ طبی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ بانجھ پن کا شکار خواتین کو ماں بننے میں مدد کر سکتا ہے جن کو ڈونرز اور طبی سہولیات دستیاب ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ڈاکٹرز عام سادہ زچگی کو بھی آپریشن میں تبدیل کر دیتے ہیں اور قصائیوں کی طرح چیر پھاڑ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے عورت کا آئندہ کا حمل بھی پیچیدہ بنا دیا جاتا ہے۔ دنیا ریسرچ کرتی ہے اور ہم اس ریسرچ پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ آخر انسانیت کی قدر و قیمت کو ہم کب سمجھیں گے؟

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔