سوئے اتفاق

ظہیرالاسلام شہاب

بچپن سے خواہش رہی ہے کہ کسی طرح نئی جگہیں دیکھوں، نئے نظریات سے آشنا ہوجاؤں، نئے لوگوں سے ملوں اور ان سے زندگی کے تجربات کے بارے میں پوچھ گچھ کرکے بہت ساری باتیں سیکھوں۔
میرا خیال ہے کہ یہ ایک مثبت شوق ہے. ایسا کرنے سے بہت ساری ایسی باتوں سے واقفیت ہوجاتی ہے جو کتابوں میں نہیں پائی جاتیں۔ اللہ کا کرم ہے کہ ہر جگہ اس خواہش کا سامان ہو ہی جاتا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی میں شام کا وقت ہو اور چائے نہ پی جائے، یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ہاسٹل کے کینٹین میں اپنے نئے دوست فراز کے ساتھ چائے پینے بیٹھا تھا۔ فراز سے پہلی ملاقات ایک ہفتہ پہلے یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری میں ہوئی تھی اور پہلی ہی ملاقات میں دوستی ہوگئی۔ وہ بلوچستان کے ایک خوبصورت لیکن پسماندہ علاقے سے ہیں اور پنجاب یونیورسٹی سے نفسیات میں بی ایس کررہا ہے۔

کچھ گپ شپ کے بعد میں نے فراز سے پوچھا:
یار مجھے اپنے علاقے اور اس کے حالات و واقعات کے بارے میں بتا دیں۔ کیسی جگہ ہے، لوگ کیسے ہیں اور وہاں زندگی کیسی ہوتی ہے ؟

فراز شاید اس سوال کی توقع نہیں کررہا تھا۔
بولیں: یار تم تو جانتے ہی ہو بلوچستان کے حالات۔ کیوں نہ کسی تفریحی موضوع پر بات ہوجائے۔

ان کا جواب سن کر میرا اشتیاق مزید بڑھ گیا اور کہا کہ مجھے کچھ خاص معلومات نہیں ہیں آپ ہی بتا دیں کچھ۔
شروع میں وہ ٹال رہے تھے لیکن مسلسل اصرار پر آخر کار بول ہی پڑیں۔

فراز: میں بلوچستان کے ایک انتہائی خوبصورت علاقے سے ہوں۔ مجموعی طور پر یہ ایک پہاڑی لیکن زرخیز علاقہ ہے۔ ہر سو سرسبز پہاڑوں کا ایک سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ رنگ برنگ پھل، پھول، پودے اور درخت ایک جنت نظیر وادی کا منظر پیش کرتے ہیں۔ فطرت اپنی آغوش میں دلکش حسن، مستی اور ادا سمیٹے ہر صاحب ذوق کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ پرند اور چرند کی بہتات ہے۔ تتلیوں کا رقص، جگنوؤں کی چمک دمک، بے خودی طاری کرنے والا بہتے پانیوں کا سرور اور زمان و مکان سے بے نیاز کرنے والے سکوت کے علاوہ انسان کو کسی اور دنیا میں لے جانے کے لیے کافی سامان موجود ہے۔
ہر منظر دلربائی، موسیقیت اور رعنائی سے لبریز ہے۔

چاروں موسموں کا مزاج معتدل رہتا ہے۔ موسم میں ہر نئی تبدیلی نئے خمار کو جنم دیتی ہے۔

لوگ سیدھے سادہ ہیں اور مل جل کر رہتے ہیں۔ دیہی زندگی اپنی فطری خوبصورتی کے ساتھ رواں دواں ہے۔ صدیوں پرانی ثقافت کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ مہمان نوازی، ننگ و غیرت، بزرگوں کی تعظیم و تکریم، مذہب سے بے پناہ محبت اور ایک دوسرے کی خوشی اور غمی میں شرکت یہاں کی زندگی کے لازمی جزو ہیں۔

میں: واہ! کیا بات ہے۔ مجھے تو آپ کا علاقہ بھا گیا۔ دل فورًا اس جنت کی طرف اڑ جانے کے لیے مچل رہا ہے۔ اگر میں ایک بار گیا تو شاید وہاں کا ہوکر رہوں۔
آپ نے تو بالکل میرے خیالوں کی جنت کی منظر کشی کر دی۔

فراز: یار، ہمارا علاقہ واقعی بہت خوبصورت ہے لیکن جو کچھ تم نے سنا وہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ کہانی ابھی پوری نہیں ہوئی۔

(فراز کے اس نئے انکشاف سے میرے دل کو بہت ٹھیس پہنچی اور میں اس کی پوری بات سننے کے لیے بے تاب ہوگیا)

میں: کیا مطلب؟ اب یہ دوسرا رخ بیچ میں کہاں سے آگیا؟

فراز: خان صاحب! ایک عرصے سے ہمارا گلستاں کچھ الوؤں کے نرغے میں ہے۔ ان کی نحوست پورے گلستاں پر چھائی ہوئی ہے۔
ایک ایک شاخ ان کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ روز ایک شاخ ٹوٹ جاتی ہے۔
کیسا شعر ہے وہ… ممممم ہاں!

؎ دیوار چمن پر زاغ و زغن مصروف ہیں نوحہ خوانی میں
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا

گلستان کے باسی گل و بلبل کی حفاظت کی ذمے داری بار بار پرانے روایتی مالیوں کو تفویض کرتے ہیں اور خود کو بری الزمہ سمجھ کر تماشا کرنے یا یوں کہیے خود تماشا بننے آرام سے بیٹھ جاتے ہیں۔

جو مالی باغ کی رکھوالی پر مامور ہیں وہ خود اس کی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔
بے حسی چار سو پھیلی ہوئی ہے۔ مکمل خاموشی ہے۔
کوئی بھی پوچھنے والا نہیں۔

میں: یار ایسے کیسے ہوسکتا ہے؟ کون اپنی جنت ویران کرنے کے لیے خود اس کو دوسروں کے ہاتھ میں دے گا! کیا وہاں کے لوگ اتنے بے حس بن گئے ہیں؟ کیا وہاں رکھوالی کے لیے صرف خود غرض اور لالچی لوگ بچے ہیں؟ پورا معاشرہ کیونکر کھرے اور کھوٹے میں فرق کرنے سے قاصر ہوسکتا ہے!
کھل کے بتا دیں کیا ماجرا ہے یہ سارا؟

فراز: یار دنیا کافی آگے بڑھ گئی لیکن ہمارے لوگوں کی سوچ اب تک ویسی ہی فرسودہ اور دقیانوسی ہے۔ پہلے پہل لوگ سرداروں، خوانین اور وڈیروں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوجاتے تھے۔ اب بھی ویسا ہی ہے بس ان لوگوں نے سیاست دانوں کا روپ دھار لیا ہے۔
پہلے یہ لوگ بڑی حد تک ہماری مرضی کے بغیر ہم پر مسلط ہوجاتے تھے اور اب ہم خود ان کو وہی اختیارات دیتے ہیں۔

ہمارے ذہنوں میں اب بھی عزت، دانائی اور بزرگی کا معیار پیسہ، شہرت، بنگلہ اور جائداد یا اس کے علاوہ کسی کی نام نہاد پارسائی ہے۔ اس لیے اب بھی ہم ان ہی لوگوں سے متاثر ہوتے ہیں، ان ہی لوگوں کو پوجتے ہیں اور ان ہی لوگوں کو اپنا زمام قیادت تھما دیتے ہیں خواہ ان کی علمی، اخلاقی اور قائدانہ رتبہ بالکل صفر ہی کیوں نہ ہو۔

گنتی کے چند لوگ جو لمبے عرصے سے ہمارے خدا بنے بیٹھے ہیں، بھی ہمارے لوگوں کی اس جاہلانہ نفسیات سے پوری طرح واقف ہیں اور اس سے بھر پور استفادہ بھی کرتے ہیں۔

اسی لیے تو انتخابات کے قریب کبھی کسی کی شادی میں وارد ہوتے ہیں تو ڪبھی کسی کے ہاں جنازے یا تعزیت کے لیے نازل ہو جاتے ہیں۔ کسی کو اپنی بڑی سی گاڑی میں بیٹھے ہوئے دور سے سلام پھینکا تو کسی کے لیے اپنے مبارک ہونٹوں پر مسکراہٹ سجا دی۔ کسی کے سامنے اپنی پارسائی اور اپنے سفر حج
کے کشف و کرامات کا ذکر چھیڑا تو کسی کے سامنے تسبیح کی نمائش کرلی۔

جہالت، اوچھے پن اور کم ظرفی کی انتہا دیکھ لو، بجائے ان لوگوں کی اصلیت پہچاننے کے، لوگ سیاست دانوں کا یہ رویہ دیکھ کر الٹا خوش ہوجاتے ہیں۔
وہ خود کو بڑے خوش نصیب سمجھ لیتے ہیں کہ دیکھو فلاں نے ازراہ کرم مجھے سلام کیا تھا، مسکرا دیے تھے، تعزیت کے لیے آئے تھے۔۔۔۔۔فلاں تو دن رات وضو میں رہتے ہیں، ذکر و فکر کرتے رہتے ہیں۔ اس بار تو ووٹ پکا اسی کا ہے۔

ارے بابا، ان لوگوں کو ہم اسمبلی میں اس لیے نہیں بھیجتے کہ کل کو یہ ہمارے جنازے پڑھائیں، ہمیں سلام کریں یا ہمیں اپنی نیکیوں کی داستانیں سنائیں۔
یہ ان کا اور خدا کا ذاتی معاملہ ہے۔ ان کو اس لیے بھیج دیتے ہیں کہ ان کو حکومت ہمارے محصولات سے اخذ شدہ رقم میں سے جو رقم دیتی ہے، اس کے ذریعے ہمارے مسائل حل کردیں اور ہمارے مزہب، ثقافت اور ضروریات کے مطابق مناسب قانون سازی کرلیں۔

لیکن جب لوگ اس قدر جاہل ہوں تو ہمیں ہمارا حق کیوں ملے۔ قوم کے پیسوں سے سیاستدان خوب عیاشی کرتے ہیں، بڑے شہروں میں نت نئے بنگلے تعمیر کرتے ہیں، نئے کاروباری مراکز بناتے ہیں،
اپنے بچوں کو سامان عیاشی کے ساتھ ساتھ مہنگے اداروں میں تعلیم دلواتے ہیں تاکہ کل کلاں یہی بچے ہم پر مسلط کیے جائیں۔

میں: یار فراز، سارے لوگ تو ایسے نہیں ہوں گے۔ گنتی کے کچھ لوگ ہوں گے۔

فراز: نہیں، گنتی کے لوگ ہوتے تو کیا خوب ہوتا۔ ہمارے ہاں تو چند ایک افراد کے علاوہ پوری آبادی بے شعور اور بے ضمیر ہے۔

عین انتخابات کے دنوں میں لوگ اتنی کم قیمت پر بک جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
مجھے آپ کو بتاتے ہوئے شرم آتی ہے لیکن ہمارے ہاں نظریاتی لوگ ناپید ہیں۔ لوگ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ میلے میں کون ان کی قیمت زیادہ لگاتا ہے۔

کسی کی قیمت دس بیس ہزار روپے ہوتی ہے، کسی کا مول ایک موٹر سائیکل ہوتا ہے، کوئی پانی کے کنوے یا پانی کی ترسیل کے لیے مستعمل پائپ کے عوض بک جاتا ہے تو کوئی اپنے جرم میں سیاست دان کی مدد کے ذریعے اپنی گلو خلاصی پر سر جھکا دیتا ہے۔ کچھ نمونے ایسے بھی ہیں جو بریانی کی ایک پلیٹ پر بھی دل و جان نثار کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ہاں ایسے بہت سارے خاندان موجود ہیں جو سیاست دانوں کی کرم نوازی سے ملنے والی معمولی ملازمت کی وجہ سے عمر بھر کے لیے غلامی قبول کرلیتے ہیں اور ہر جگہ، ہر پلیٹ فارم پر اپنے آقاوؤں کے لیے مرنے مارنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

میں: یار آپ کا علاقہ تو پھر انتہائی حسین ہوتے ہوئے بھی ناقابل رہائش جگہ ہے۔ کسی بھی مقام کی خوبصورتی اور بدصورتی میں وہاں کے رہنے والوں کے زاویۂ فکر کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ اگر لوگ سیاسی طور پر اتنے بدھو ہیں تو پھر تو آپ کی یہ جنت بہت جلد ویران ہوجائے گی اور سیاستدانوں کا کیا ہے، وہ تو بڑے بڑے شہروں میں موجود اپنے بنگلوں میں منتقل ہوجائیں گے لیکن آپ لوگوں کا کیا بنے گا۔

مجھے یہ بتا دیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں اپنی قوم اور علاقے کے لیے تھوڑی بہت ہمدردی باقی ہے، وہ باقی لوگوں کو سمجھاتے کیوں نہیں ہیں یا وہ خود میدان سیاست میں کیوں نہیں آتے؟۔ ۔ (جاری ہے)

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔