سفارشی صحافت

وطن زیب یوسفزئی

صحافت ایک مقدس پیشہ ہیں لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں جس طرح صحافت ہورہی ہیں وہ اپ سب لوگوں کو معلوم ہیں لہذا اس پر میں اپ لوگوں کا وقت خراب نہیں کرتا اس بلاگ میں میں کوشش کرونگا کہ تین اہم مسلئے اس میں بیان کرو سب سے اہم مسلہ ہمارے تحصیل اور ڈسٹرکٹ سطح پر جو صحافت ہورہی ہیں. وہ کس طرح ہیں یہ بہت چھوٹے چھوٹے صحافی ہیں لیکن کام بہت بڑے بڑے کرتے ہیں ان صحافیوں کا اپنا اپنا کاروبار ہوتا ہیں لیکن یہ لوگ صحافتی پیشہ صرف معاشرے میں اپنا نام بنانے کیلئے استعمال کرتے ہیں اصل میں یہ لوگ ان پڑھ ہوتے ہیں اور دو نمبر اور بلیک میلنگ میں سب سے اگے ہوتے ہیں ان اجوکیٹڈ سے میرا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس ایف اے یا بی اے کی ڈگری ہوگی.

یہ لوگ صحافت کو نہیں سمجتھے کہ صحافت ہیں کیا چیز؟ لیکن سب لوگ اسطرح نہیں ہیں اچھی لوگ بھی ہیں اس میں لیکن زیادہ تر ایسے لوگ ہیں جو ڈی سی ،اے سی اور ایس ایچ او پر اپنے فیصلے مصلت کرتے ہیں اور جب ایماندار ڈی سی، اے سی اور ایس ایچ او وغیرہ  ان کے فیصلوں سے اختلاف کرتے ہیں تو پھر ان بلیک میلر صحافیوں کے فیس بک وال سے لیکر اپنے ادارے کے ایڈیٹوریل تک ان کے خلاف خبر لگاتے ہیں اور اصل میں صحافت کے دشمن یہ لوگ ہیں۔ بحثیت قوم ہم سب کو ان دشمنوں کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا جب ہم ان کے خلاف ایک ہوجائنگے تو یہ ناسور ہم معاشرے سے ختم کرسکتے ہیں ۔ دوسرا مسئلہ اس سے اوپر جو لوگ ہیں وہ زیادہ تر صوبائی  سطح پر صحافت کررہے ہیں ان صحافیوں کے رسائی ایم پی اے اور چیف منسٹر تک ہوتی ہیں۔

یہ صحافی ایم پی اے اور وزیراعلی سے سرکاری نوکری کے ڈیمانڈ کرتے ہیں اور جب بھی ان کو سرکارسے اچھی سے نوکری مل جائے تو ان کےلئے صحافت کو خدا حافظ کہنا کوئی مشکل نہیں ہوتا ان لوگوں کے صحافت میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ان کا  صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہیں اور وہ ہیں اپنے آپ کو سٹیبل کرنا ، اور تیسرا مسئلہ جو اس وقت عروج پر ہیں وہ ہیں ملکی سطح پر صحافت کرنا جو صحافی ملکی سطح پر صحافت کرتے ہیں جس میں زیادہ تر صحافی اپنے رائے بھی نہیں دیں سکتے۔ اس کی کچھ خاص وجوہات ہیں اور وہ وجوہات یہ ہیں ان کے خبر ہزار جگہ سینسر ہوتی ہیں ہر کوئی نیوز چینل یا اخبار کی ایک پالیسی ہوتی ہیں اب یہ پالیسی کیا چیز ہیں؟ بجائے یہ کہ ہم اپنا پالیسی یہ بنائی کہ ہمارا عزم یہ ہوگا کہ ہم بر وقت اپنے ناظرین کو حقیقت کے بنیاد پر درست خبر پہنچائینگے اور اپنا کام ٹھیک طریقے سے کرینگے جس چیز کیلئے یہ ادارہ بنا ہیں تو ہم وہی کام کرینگے لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں جو ملکی سطح پر صحافت ہورہی ہیں وہ صحافت نہیں بلکہ پروپیگینڈا ہورہا  ہے۔

ان کا پروپیگینڈا یہ ہوتا ہیں کہ ہم نے آئیندہ  دس سال تک یا بیس سال تک فلانا پارٹی کو سپورٹ کرنا ہیں بظاہر یہ لوگ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم صحافت کرتے  ہیں لیکن اصل میں یہ لوگ پرپیگینڈا چلارہے ہوتے ہیں۔ اس وقت پاکستانی میڈیا انڈسٹری میں ایسے نیوز چینل موجود ہیں جو دن رات ایک مخصوص پارٹی کے سپورٹ میں لگے رہتے ہیں پھر یہ لوگ کیوں اور کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم صحافت کررہے ہیں۔ یہ لوگ صحافت کے مقدس پیشے پر بد نما داغ ہیں ان لوگوں کے وجہ سے اج لوگ صحافت اور صحافیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ اب ان لوگوں میں زیادہ کردار ورکنگ صحافیوں کا نہیں ہیں اس میں اصل کردار ٹی وی اور اخبار ما لکان کا ہیں۔ وہ اپنے فیصلے اپنے امپلایز پر مصلت کرتے ہیں یہ ٹی وی اور اخبار مالکان بجائے یہ کہ ایک ایسے پارٹی کو سپورٹ کرے جو پاکستانی ریاست سے مخلص ہو جو پاکستانی عوام سے مخلص ہو جو آئین پاکستان سے مخلص ہو لیکن چند پیسوں کے خاطر یہ ٹی وی اور اخبار مالکان ایسے پارٹی کو سپورٹ کرتے ہیں جو صرف اقتدار کے بھوکے ہوتے ہیں اللہ ہم سب  پر اپنا  رحم کرے آمین ۔     

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔