روسی تیل کی حد قیمت مقرر کرکے اس کے جنگی عزائم روکیں گے، امریکا

واشنگٹن: سپرپاور امریکا کا کہنا ہے کہ روسی تیل کی قیمتوں اور خریداری کی حد مقرر کرنے سے روس کی آمدن محدود ہوجائے گی اور یوں پوتن یوکرین میں اپنی جارحانہ پالیسی ترک کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق مغربی ممالک کے اتحاد نے فیصلہ کیا ہے کہ سمندری روسی خام تیل کے ایک بیرل کی زیادہ سے زیادہ قیمت $60 ہونی چاہیے اور اس سے زیادہ قیمت پر خریدنے والے ممالک کو اس خریداری سے روکنا ہوگا۔
قیمت کی اس حد کو مقرر کرنے کا مقصد روس کو خام تیل کی خریداری سے حاصل منافع کو کم سے کم رکھنا ہے۔ مغربی اتحادی ممالک سمجھتے ہیں کہ زیادہ قیمتوں سے روس کی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے اور پوتن اس آمدن کو یوکرین میں جارحیت پر استعمال کرتے ہیں۔
روسی سمندری خام تیل کی قیمت کی حد مقرر کرنے کی تجویز رواں برس ستمبر میں صنعتی ممالک کے G7 گروپ کے اجلاس میں رکھی گئی تھی۔ اس گروپ میں بڑے صنعتی ممالک امریکا، کینیڈا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور یورپی یونین شامل ہیں۔
تاہم اب پیر کو اس قیمت کو نافذ العمل کردیا جائے گا جس کا مقصد روس پر دباؤ بڑھانا ہے تاکہ وہ یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے مذکرات کی میز پر آجائے۔
دوسری جانب یوکرین کا کہنا ہے کہ مغرب ممالک کی تجویز کردہ روسی تیل کی خریداری کی زیادہ سے زیادہ قیمت 60 ڈالر نہیں بلکہ اس کی نصف ہونی چاہیے تھی جس سے روس کی معیشت کو دھچکا پہنچایا جاسکتا تھا۔
ادھر روس نے گی بیرل خام تیل کی خریداری کی زیادہ سے زیادہ قیمت کی حد مقرر کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس قیمت کو نافذ کرنے والے ممالک کو تیل فراہم نہیں کرے گا۔
دھیان رہے کہ وہ ممالک جو G7 کی قیادت والی پالیسی پر دستخط کرتے ہیں انہیں صرف سمندر کے راستے منتقل ہونے والے تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کی خریداری کی اجازت ہوگی تاہم قیمت کی حد زیادہ سے زیادہ 60 ڈالر فی بیرل سے کم یا اس سے کم ہونی چاہیے۔
مغربی ممالک کے اتحادیوں کا یہ بھی منصوبہ ہے کہ وہ ان ٹینکرز کی انشورنس سے انکار کر دیں گے جو اس مقرر کردہ حد سے زیادہ قیمت پر خریدنے والے ممالک کو تیل کی سپلائی پر مامور ہوں گے۔
سینئر روسی سیاست دان لیونیڈ سلٹسکی نے ٹاس نیوز سے گفتگو میں دھمکی دی ہے کہ یورپی یونین قیمتوں کی حد کو مقرر کرکے اپنی توانائی کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مغربی اتحاد کے روس کے خلاف ان اقدامات سے جزوی فرق پڑے گا کیوں کہ بھارت اور چین جیسی بڑی منڈیاں روس سے تیل خرید رہی ہیں اور جی-7 کے دستخط کنندہ ہونے کی وجہ سے وہ اس پابندی کی زد میں بھی نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ عالمی توانائی ایسوسی ایشن کے مطابق یوکرین جنگ سے پہلے 2021 میں روس کی تیل کی نصف سے بھی زیادہ برآمدات یورپ میں جاتی تھیں جس میں جرمنی سب سے بڑا اس کے بعد ہالینڈ اور پولینڈ کا نمبر آتا ہے۔
لیکن جنگ کے بعد سے یورپی یونین کے ممالک شدت سے اپنا انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکا پہلے ہی روسی خام تیل پر پابندی لگا چکا ہے جبکہ برطانیہ اس سال کے آخر تک اسے ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔