جمہوریت کیلیے انتخابات ناگزیر، بحران سے نمٹنے کیلیے قربانی دینا پڑتی ہے، چیف جسٹس
اسلام آباد: الیکشن التوا کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ جمہوریت کے لیے انتخابات ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بحران سے نمٹنے کے لیے قربانی دینا پڑتی ہے۔
پی ٹی آئی کی پنجاب اور کے پی میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق درخواست پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے کی، جس میں نئے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور سینیٹر فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے سماعت کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، پہلے اٹارنی جنرل کو سنیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سادہ سا سوال ہے، جو الیکشن کمیشن نے فیصلہ دیا ہے، کیا الیکشن کمیشن کے پاس ایسا اختیار تھا؟سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں؟۔ اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا، تو بات ختم ہوجائے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو فریق بنانے کے لیے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا تھا۔ جمہوریت کے لیے قانون کی حکمرانی لازمی ہے۔ قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی۔ سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ سپریم کورٹ کے 2 ججز نے پہلے فیصلہ دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اِس وقت سوال فیصلے کا نہیں، الیکشن کمیشن کے اختیار کا ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فیصلہ اگر 4، 3 کا ہوا تو حکم کا وجود ہی نہیں، جس کی خلاف ورزی ہوئی۔ عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے۔ موجودہ کیس میں استدعا ہی فیصلے پر عملدرآمد کی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بینچ کے ارکان درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں۔ آپ کا انحصار تکنیکی نکتے پر ہے۔ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا۔ فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ درخواست کے قابل سماعت ہونے کا بھی نکتہ اٹھانا ہے۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ مناسب ہوگا فل کورٹ اس معاملے کو سنے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عدالتی فیصلہ کتنے ارکان کا ہے،یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ یہ بتائیں کہ کیا 90 روز میں انتخابات کرانا آئینی تقاضا نہیں ہے؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں منسوخ کرنے کا ہے۔ جمہوریت کے لیے انتخابات ضروری ہیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ تکنیکی بنیادوں پر معاملہ خراب نہ کریں۔ سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے۔ اس معاملے کو دوبارہ اٹھا کر عدالت میں پیش نہ کیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلے کا معاملہ اٹھانا ہے تو الگ سے درخواست دائر کریں۔ اس وقت مقدمہ تاریخ دینے نہیں منسوخ کرنے کا ہے۔ فیصلہ کتنی اکثریت کا ہے اس کا جائزہ بعد میں لیا جا سکتا ہے۔ فی الحال سنجیدہ معاملات سے توجہ نہ ہٹائی جائے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کر سکتا ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ کلیئر کرنے پر جسٹس جمال مندوخیل کا مشکور ہوں۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا کہ ملک میں اس وقت انار کی اور فاشزم ہے۔آئین زندہ دستاویز ہے،تشریح زمینی حالات ہی پر ہوسکتی ہے۔ موجودہ حالات میں جمہوریت اور ملک کے لیے کیا بہتر ہے وہ تعین کرنا ہے۔ سیاسی جماعتیں اسٹیک ہولڈرز ہیں، انہیں لازمی سنا جائے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ یہ سوال پارلیمنٹ میں کیوں نہیں اٹھایا جاتا؟، جس پر فاروق نائیک نے جواب دیا کہ معاملہ پارلیمان میں اٹھانے کا بھی سوچ رہے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی اعلیٰ قیادت سے بھی ایسے رویے کی توقع ہے۔ پہل تحریک انصاف کو کرنا ہوگی کیوں کہ عدالت میں وہ آئے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے۔ معاشی حالات دیکھیں آٹے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ آپس میں دست و گریبان ہونے کے بجائے ان لوگوں کا سوچیں۔ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہاکہ انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تو یہ بحران مزید بڑھے گا۔
جسٹس امین الدین خان نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ کیا الیکشن شیڈول 90 دن سے کم کیا جاسکتا ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس 90 دن کے اندر شیڈول ایڈ جسٹ کرنے کا اختیار ہے۔ الیکشن کمیشن بظاہر 90 دن سے تاخیر نہیں کرسکتا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 90 دن اب بھی گزر گئے ہیں۔آئین کی کی ہمارے ملک میں کوئی پروا نہیں کرتا ۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن تو ہر صورت ہونے ہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ اب 90 دن سے زیادہ تاریح کون بڑھائے گا؟۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک بندے کی خواہش پر اسمبلی تحلیل ہونی چاہیے۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ منتحب نمائندے ہوتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر وزیراعظم کی اپنی جماعت عدم اعتماد لانا چاہے تو اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد آجائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی۔ جسٹس جمال مندوخیل نےاستفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ کو اس معاملے کو نہیں دیکھنا چاہیے، جس پر وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ کے اختیار پر پارلیمنٹ بحث کرسکتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ صدر مملکت کی تاریخ پر الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیا۔ سوال یہ ہے کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ صدر مملکت کی تاریخ کو تبدیل کر دے؟۔ کیا الیکشن کمیشن 90 دن سے زیادہ کی تاخیر کر سکتا ہے؟۔ سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن ایسا کر سکتا ہے؟۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب کی حد تک عدالتی فیصلے پر عمل کیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس تاریخ کا تعین کرنے کا اختیار ہے؟ کیا الیکشن کمیشن صدر کی تاریخ کو تبدیل کر سکتا ہے؟۔ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتخابات منسوح کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ 2008ءمیں انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تھے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کے دو آرٹیکلز کا سہارا لیا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے وجوہات بتا کر کہا کہ آئینی ذمے داری ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ نہ دیتا تو کیا ہوتا؟۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن تاریح تبدیل کرنے کے لیے صدر سے رجوع کرسکتا تھا۔تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں۔وجوہات ٹھوس ہوں تو ہی کمیشن رجوع کرسکتا ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل220 تمام حکومتوں اور اداروں کو کمیشن سے تعاون کا پابند کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے صرف اداروں سے مؤقف لے کر فیصلہ لکھ دیا۔ عدالت کمیشن سے پوچھے کہ آئینی اختیار استعمال کیوں نہیں کیا۔ انتظامی ادارے تعاون نہ کریں تو آرٹیکل 5 کا اطلاق ہو گا۔ ہر ادارہ آئین اور شخص قانون پر عمل کرنے کا پابند ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ پہلے ہی 90 دن کے بعد کی تھی۔ کیا 90 دن بعد کی تاریخ درست تھی؟۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ اب بھی عدالت حکم دے تو 90 دن میں الیکشن نہیں ہو سکتا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صدر نے بھی الیکشن تاریخ 90 دن کے بعد کی دی۔آرٹیکل 254 کا سہارا کام ہونے کے بعد لیا جا سکتا ہے پہلے نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عملی طور پر الیکشن 90 دن میں ممکن نہ ہوں تو عدالت حکم دے سکتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر انتخابات ممکن نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ ایک اسمبلی کے شیڈول کے دوران دوسری اسمبلی تحلیل ہو جائے تو ایک ہی دن انتخابات کے لیے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن ازخود ایسا حکم جاری نہیں کر سکتا۔ الیکشن کمیشن 6 ماہ الیکشن آگے کر سکتا ہے تو 2 سال بھی کر سکے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے یہاں آئین خاموش ہے۔ کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہو گا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ جس بنیاد پر الیکشن ملتوی ہوئے اس طرح تو کبھی الیکشن نہیں ہو سکتے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر فنڈز کا معاملہ ہے تو نگراں حکومت فنڈز کیسے دے گی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو مسائل آج ہیں وہ 8 اکتوبر کو کیسے نہیں ہوں گے؟۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا فنڈز فراہم نہیں کیے گئے۔ الیکشن کمیشن نے کبھی فنڈز دینے کی ہدایت نہیں کی تھی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اخبار میں وزیر اعظم کا بیان پڑھا تھا۔ وفاقی حکومت کہتی ہے فروری تک 500 ارب ٹیکس جمع کیا۔ حیرت ہے کہ 500 میں سے 20 ارب نہیں دیے گئے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکمنامے کے مطابق سیکرٹری خزانہ نے کہا فنڈز دینا مشکل ہو گا۔ وزارت خزانہ نے مشکل کہا تھا انکار نہیں کیا تھا۔ سیکرٹری خزانہ نے تو کہا الیکشن کے لیے فنڈز نہ ابھی ہیں نہ آگے ہوں گے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ الیکشن تو ہوں گے ہی نہیں۔ حکومت کا کوئی سیکرٹری ایسا بیان کیسے دے سکتا ہے۔ ٹیکس جمع ہو کر فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں جاتا ہے۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز کے اخراجات پارلیمنٹ کی منظوری سے خرچ ہوتے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر اسمبلی تحلیل ہوجائے تو کیا فنڈز جاری ہی نہیں ہو سکیں گے؟، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ موجودہ کیس میں قومی اسمبلی موجود ہے۔ نئی اسمبلی اخراجات کی منظوری دیتی ہے۔ سیکرٹری خزانہ کے بیان کا جواب الیکشن کمیشن ہی دے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیکرٹری خزانہ منظور کردہ بجٹ سے ہٹ کر فنڈز کیسے دے سکتا ہے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ تکنیکی نقطہ ہے کہ پیسے کہاں سے آنے ہیں؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کے لیے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ 20 ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جاسکتا ہے۔حکومت اخراجات کم کر کے 20 ارب نکال سکتی ہے۔ ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے، اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بحران سے نمٹنے کے لیے قربانی دینا ہوتی ہے۔ 5 فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سب سے زیادہ آپریشن کیے۔ پنجاب میں اب تک صرف 61 آپریشن ہوئے۔ سندھ میں 367 جب کہ خیبرپختونخوا میں 1245 آپریشن ہوئے۔ پنجاب کی صورتحال خیبرپختونخوا سے مختلف ہے۔ ترکی زلزلہ متاثرہ علاقوں کے علاوہ ہر جگہ الیکشن ہو رہے ہیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ بھی کہتا ہے کہ جہاں مسئلہ ہو وہاں پولنگ منسوخ ہو سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ پورا الیکشن ملتوی کر دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کیے جا سکتے ہیں۔
سماعت کے دوران عدالت میں ایبسلوٹلی ناٹ کا تذکرہ بھی ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ایمرجنسی نافذ کرنے کی بات کرتا ہے؟ جس پر وکیل علی ظفر نے جواب دیا ایبسلوٹلی ناٹ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایبسلوٹلی ناٹ تو آپ نے کسی اور کو کہا تھا۔چیف جسٹس کے ریمارکس پر عدالت میں قہقے لگ گئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا بجٹ میں انتخابات کے لیے فنڈز مختص ہیں؟۔ اگر فنڈز نہیں ہیں تو فنڈز لینے کا طریقہ کار آئین میں درج ہے۔
وکیل علی ظفر نے بتایا کہ گزشتہ سال چیف الیکشن کمشنر نے بتایا تھا کہ نومبر 2022میں الیکشن کے لیے تیار ہیں۔ اب الیکشن کمیشن اچانک کہتا ہے فنڈز نہیں ہیں۔ فنڈز نہ ہونا الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی بہانہ نہیں۔الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی عملہ موجود ہے۔ سکیورٹی فراہم کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔ سکیورٹی اہلکاروں کی عدم دستیابی کا ذکر کیا گیا ہے۔ پولیس نفری کم ہونے کا بہانہ تو ہمیشہ رہے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے سابق چیف جسٹس کو قتل کردیا گیا۔کیا یہ ٹھوس وجہ نہیں ہے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ ایسی بھی وجہ نہیں ہے الیکشن نہ کروائے جائیں۔ کیا نگراں حکومت نفری دینے سے انکار کرسکتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے وہ اختیار استعمال کیا جو اس کا تھا ہی نہیں۔الیکشن کمیشن ہائیکورٹ سے بھی رجوع کرسکتا تھا۔۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم تھا تو معاملہ یہیں آنا تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ جانے سے آپ کو کیا مسئلہ ہے؟۔ جس پروکیل علی ظفر نے کہا کہ وقت کی قلت ہے، مزید چارہ جوئی میں مزید وقت ضائع نہیں کر سکتے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین واضح ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہائیکورٹ نے کروانا ہے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ معاملہ دو صوبوں کا ہے ایک ہائیکورٹ عمل نہیں کروا سکتی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہائیکورٹ سپریم کورٹ کے احکامات کو تبدیل نہیں کر سکتی۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے مناسب ہو گا سپریم کورٹ خود کیس سنے۔ امین الدین خان نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن انتظامی اداروں کے خلاف خود کارروائی کر سکتا ہے؟۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اداروں کو ہدایات جاری کر سکتا ہے۔ ادارے عملدرآمد نہ کریں تو عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے عدالت کو کہا تھا وہ تاریخ مقرر نہیں کر سکتے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کمیشن نے بعد میں 8 اکتوبر کی تاریخ غلط کیسے دی۔ وکیل علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن اکتوبر میں پھر کہہ دے کہ حالات ٹھیک نہیں تو کیا الیکشن جنوری تک جا سکتے ہیں۔ عدالت فیصلہ کرے تو آئی ایم ایف اور دوست ممالک خوش ہوں گے۔ قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں۔ غیر آئنی اقدام کے خلاف عدالت ہی آخری دیوار ہے۔آئین کا پہلا اصول اسلام دوسرا جمہوریت ہے۔جمہوریت انتخابات ہی سے ہوتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیکشن 58 کا اختیار کمیشن کو الیکشن ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن اپنا حکم واپس لے کر کہے کوئی مدد نہیں کررہا تو کیا ہو گا؟اپنی مشکلات حل کروانے کے لیے کمیشن کو عدالت ہی آنا ہوگا۔
وکیل علی ظفر کے دلائل کے بعد عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا۔ بعدازاں اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صرف پنجاب کی حد تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا گیا ہے، گورنر کے پی کا معاملہ سپریم کورٹ میں الگ سے چیلنج ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کا دفاع وکلاء کریں گے، حکومت سے فنڈز اور سیکیورٹی کا مطالبہ کیا گیا تھا، پولنگ اسٹیشنز پر فوج تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا تھا ، فنڈز کے حوالے سے کل سیکریٹری خزانہ سے معلومات لے کر تفصیل دوں گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت 170 ارب حکومت نے وصول کرنے تھے، اضافی وصولی کے لیے ضمنی بجٹ دیا گیا، جو معلومات ابھی دے رہا ہوں وہ میری سمجھ کے مطابق ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا مزید اقدامات کرکے 20 ارب اضافی نہیں لیے جاسکتے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اضافی ٹیکس لگانے سے عوام کو مزید مشکلات ہوں گی اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ حکومت نے تخمینہ 170 ارب سے زیادہ کا ہی لگایا ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تیس جون تک 170 ارب روپے وصول کرنے کا ہدف ہے، آئی ایم ایف کا مطالبہ تھا کہ شرح سود میں اضافہ کیا جائے، شرح سود میں اضافے سے مقامی قرضوں میں اضافہ ہوا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا بیس ارب روپے جمع کرنا حکومت کے لیے مشکل کام ہے؟ کیا عام انتحابات کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ صوبوں کو اندرونی اور بیرون خطرات سے بچانا وفاق کی آئینی ذمے داری ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹھارہوں ترمیم کے بعد وفاقی غریب اور صوبے امیر ہوئے ہیں، معاشی صورت حال سے کل آگاہ کروں گا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ نے کہا تھا الگ الگ الیکشن کروانے کے پیسے نہیں ہیں اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکریٹری خزانہ نے الیکشن کمیشن کے بیان پر ایسا کہا ہوگا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ معاملہ ترجیحات کا ہے، لیپ ٹاپ کے لیے دس ارب روپے نکل سکتے ہیں تو الیکشن کے لیے بیس ارب کیوں نہیں؟