وزارت عظمیٰ: ن لیگ اور پی پی کے آج کسی نتیجے پر پہنچنے کا امکان

اسلام آباد: الیکشن 2024 کے نتائج مکمل ہوچکے، جس کے بعد سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی پارٹی پوزیشن واضح ہوچکی اور اب حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق مرکز میں حکومت بنانے کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان شراکت اقتدار کا فارمولا تیار کرلیا گیا ہے، دونوں جماعتوں نے دو نکاتی فارمولے پر اتفاق کرلیا ہے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ پہلے مرحلے میں زیادہ نشستوں والی پارٹی کا وزیراعظم 3 سال رہے گا جب کہ دوسرے مرحلے میں 2 سال کے لیے دوسری جماعت کا وزیراعظم ہوگا جب کہ پیپلز پارٹی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے مریم نواز کی حمایت کی یقین دہانی کرائے گی۔
عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ جاری ہے جس میں آزاد امیدواروں کو گیم چینجر کی حیثیت حاصل ہے۔
حکومت سازی کے لیے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں رابطے ہورہے ہیں جب کہ ایم کیو ایم کا وفد بھی (ن) لیگ کے قائدین سے لاہور میں ملاقات کرچکا ہے۔
ذرائع کے مطابق (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان ہونے والی ملاقات میں لیگی وفد نے مؤقف اپنایا کہ وزیراعظم مسلم لیگ ن کا ہوگا جب کہ آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی بلاول بھٹو کو وزیراعظم کا امیدوار نامزد کرچکی ہے۔
ذرائع کے مطابق ملاقات میں رہنماؤں کی جانب سے آدھی مدت کے لیے ن لیگ اورآدھی مدت کے لیے پیپلز پارٹی کے وزیراعظم کے امکانات کا بھی جائزہ لیا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت کے درمیان ہونے والی اس ملاقات میں دونوں جماعتوں کے درمیان وفاق، پنجاب اور بلوچستان میں اتحادی حکومتیں بنانے پر اتفاق ہوا ہے۔
ملاقات میں دونوں جماعتوں کے درمیان میثاق جمہوریت کی روشنی میں 5 سال کا روڈمیپ طے کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے پی پی رہنما فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کا مؤقف ہے کہ بلاول بھٹو وزیراعظم کے امیدوار ہوں، کیونکہ کوئی بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ ہمارے بغیر حکومت بنائے، (ن) لیگ کی جہاں تک بات ہے تو عددی برتری تو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو بھی حاصل ہے لیکن کوئی بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو ان کے مشیروں کی حیثیت رکھنے والے پارٹی کے ایک سے زیادہ رفقا نے یہ تجویز کیا ہے کہ ایک کمزور اتحادی سے زیادہ بہتر طاقتور اپوزیشن کی حیثیت ہے۔
اس لیے خدشات اور تحفظات کے ساتھ حکومت کا حصہ بننے کے بجائے ہمارا اپوزیشن میں بیٹھنا بہتر ہوگا، پیپلزپارٹی کی سی ای سی کا اہم اجلاس آج اسلام آباد میں ہوگا، زرداری اور بلاول مشترکہ صدارت کریں گے۔
اس تجویز کے بڑے حامی قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر کے سیکریٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی جب کہ اس تجویز کی حمایت میں پارٹی کے بعض ارکان نے ایکس پر پوسٹیں بھی کی ہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔