پاکستان اور اٹلی دو طرفہ تعلقات کے استحکام کیلیے تعاون بڑھانے پر متفق

اسلام آباد: اٹلی اور پاکستان نے پارلیمانی روابط کے فروغ، دو طرفہ تعلقات کے استحکام اور باہمی دلچسپی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے مشترکہ کوششیں بروئے کار لانے پر اتفاق ظاہر کیا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان وفود کی سطح پر مذاکرات وزارتِ خارجہ میں ہوئے۔ پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جب کہ اطالوی وفد کی قیادت ہم منصب لیوگی دے مایو کررہے تھے۔
شاہ محمود قریشی نے کورونا وبا کے دوران قیمتی جانوں کے نقصان پر اطالوی ہم منصب سے اظہار تعزیت کیا اور کہا کہ جس طرح اٹلی نے کورونا وبا کے پھیلائو کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کیے وہ قابل تحسین ہیں جب کہ ہمیں پاکستان میں محدود وسائل کے باوجود اسمارٹ لاک ڈائون کے ذریعے اس وبا پر قابو پانے اور اس کے پھیلائو کو روکنے میں کافی مدد ملی۔
وزیر خارجہ شاہ محمود نے کہا کہ پاکستان، اٹلی کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے۔ یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی سطح پر پاکستان اور اٹلی کے درمیان مربوط اشتراک، مستحکم تعلقات کا مظہر ہے، اہم علاقائی و عالمی امور پر پاکستان اور اٹلی کے نقطہ نظر میں مماثلت حوصلہ افزا ہے۔
انہوں نے، جی ایس پی پلس اسٹیٹس اور فیٹف کے حوالے سے، اٹلی کے پاکستان کی حمایت کرنے پر اطالوی ہم منصب کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان یورپی یونین کے بہت سے ممالک کے سربراہان مملکت کے ساتھ افغانستان کی صورت حال پر رابطے میں ہیں۔ مجھے یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بوریل سمیت کئی یورپی وزرائے خارجہ کے ساتھ افغانستان کی صورت حال پر تبادلۂ خیال کا موقع مل چکا ہے۔


وزیر خارجہ نے اٹلی کی جی 20 کی صدارت سنبھالنے پر، اطالوی وزیر خارجہ کو مبارک باد دی اور کہا کہ جی 20 کی طرف سے افغانستان کی صورت حال پر کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان، ہمسایہ ملک ہونے کے ناتے گذشتہ چار دہائیوں سے افغانستان میں جاری خانہ جنگی اور بدامنی کے مضمرات کا سامنا کرتا آرہا ہے، افغانستان میں اگست کے وسط میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ افغانستان کے حوالے سے لگائے گئے تمام اندازے اور پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں اہم بات جنگ کے خاتمے سے افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کی امید کا پیدا ہونا ہے، طالبان قیادت کی جانب سے جنگ کے خاتمے، عام معافی، افغانوں کے حقوق کے تحفظ اور افغان سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہ کرنے کے حوالے سے سامنے آنے والے بیانات، حوصلہ افزا ہیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان، افغان شہریوں کی جان و مال اور حقوق کے تحفظ کے ساتھ، افغانستان میں اجتماعیت کی حامل حکومت کا متمنی ہے،افغانستان کے لوگ گذشتہ چالیس برسوں سے جنگ و جدل کا سامنا کرتے آئے ہیں۔ افغانستان میں بدلتی صورت حال کے تناظر میں عالمی برادری پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ افغانوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو افغانستان میں امن کی بحالی اور انسانی بنیادوں پر افغانوں کی مالی معاونت کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان میں خانہ جنگی، مہاجرین کی یلغار جیسے خطرات پیدا نہ ہوں، ہمیں اس موقع پر امن مخالف عناصر(اسپائلرز) پر بھی کڑی نظر رکھنا ہوگی جو افغانستان میں قیام امن کی کاوشوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے متحرک ہیں۔
وزیر خارجہ نے اطالوی ہم منصب کو اپنے حالیہ چار ملکی دورے کے حوالے سے کہا کہ میں نے تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران کی قیادت کے ساتھ، افغانستان کی صورت حال کے تناظر میں درپیش چیلنجز اور علاقائی سطح پر متفقہ لائحہ عمل کی تشکیل کے لیے مشاورت کی اور انہیں پاکستان کے نقطۂ نظر سے آگاہ کیا۔
شاہ محمود نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کا فائدہ پورے خطے کو یکساں طور پر ہوگا، پاکستان نے مختلف ممالک کے 12 ہزار شہریوں کو کابل سے انخلا میں معاونت فراہم کی اور پاکستان، انخلا کے عمل میں مدد کا سلسلہ جاری رکھنے کیلئے پر عزم ہے۔
اطالوی وزیر خارجہ نے افغانستان سے انخلا کے عمل میں اطالوی شہریوں کی معاونت پر پاکستانی قیادت کا شکریہ ادا کیا ۔دونوں وزرائے خارجہ نے پاکستان اور اٹلی کے درمیان پارلیمانی روابط کے فروغ، دو طرفہ تعلقات کے استحکام اور باہمی دلچسپی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے مشترکہ کوششیں بروئے کار لانے کے عزم کا اظہار کیا۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔