این اے 249 کا ضمنی الیکشن…کچھ پہلو

کراچی کے حلقے این اے 249 میں ہونے والا ضمنی انتخاب ہمارے انتخابی نظام اور ہماری سیاست کے بہت سے پہلو ان کی پوری سیاہی اور بدصورتی کے ساتھ سامنے لے آیا ہے۔ جب میں یہ سطریں لکھ رہی ہوں تو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس الیکشن کے نتیجے کے خلاف مسلم لیگ ن کی درخواست منظور کرتے ہوئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا حکم دے دیا ہے، اور جب میرا یہ کالم سامنے آئے گا تو ووٹوں کی گنتی کا مرحلہ گزر گیا ہوگا اور نتیجہ سامنے آچکا ہوگا۔ مجھے نہ اس نتیجے سے دلچسپی ہے، نہ میرا یہ مسئلہ ہے کہ اس نشست پر کون ہارا کون جیتا۔ میرا موضوع تو اس الیکشن کے حوالے سے سامنے آنے والے وہ پہلو ہیں جن پر اس ضمنی انتخاب کا نتیجہ اثرانداز ہوگا نہ کسی کی فتح اور شکست۔
بات شروع کرتے ہیں مفتاح اسمعٰیل کی اس درخواست سے جو انھوں نے الیکشن کمیشن کو دی اور جسے منظور کرلیا گیا۔ مفتاح اسمعٰیل نے اپنی درخواست میں جہاں اور باتیں تحریر کی ہیں وہیں یہ مطالبہ بھی کرڈالا کہ انتخابی مواد بہ شمول بیلٹ پیپر رینجرز یا فوج کی زیرنگرانی رکھے جائیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مفتاح اسمعٰیل اس حلقے سے مسلم لیگ ن کے امیدوار ہی نہیں تھے، وہ ن لیگ کے راہنماؤں میں شامل ہیں اور اپنی جماعت کی حکمت عملیوں، اقدامات اور سب سے بڑھ کر بیانیے کی بڑی وضاحت اور فصاحت وبلاغت کے ساتھ ترجمانی کرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ن لیگ کا بیانیہ جسے نوازشریف کا بیانیہ بھی کہا جاتا ہے، ”ووٹ کو عزت دو“ کے نعرے سے شروع ہوکر جن الزامات اور موقف پر ختم ہوتا ہے اس کا لُب لُباب یہ ہے کہ ”پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ یا ادارے جمہوریت کا راستہ روکتے ہیں، یہ ووٹ کو عزت دینے کے بجائے اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں اور انتخابی عمل پر اثرانداز ہوتے ہیں، چناں چہ لازمی ہے کہ انھیں چاہیے کہ سیاست اور انتخابی عمل سے دور رہیں اور انھیں اس سب سے دور رکھا جائے۔“ ن لیگ کی طرف سے یہ بیانیہ 2018 کی انتخابات کے دوران زورشور سے پیش کیا گیا اور اس کے بعد بھی تواتر سے پیش کیا جارہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف کی اس بیانیے کے حوالے سے سخت تقاریر اور درشت لب ولہجہ ہر محب وطن پاکستانی کو تشویش میں مبتلا کرتا رہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اب اسی مسلم لیگ ن کے ایک راہنما، اسی نوازشریف کے ایک متوالے اور اسی بیانیے کے ایک بیان کرنے والے مفتاح اسمعٰیل نے الیکشن کمیشن اور سویلین انتخابی عملے پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انتخابی عمل میں رینجرز اور فوج کی شمولیت کی درخواست کربیٹھے۔ سوال یہ ہے کہ مفتاع اسمعٰیل کے اس اقدام کو مسلم لیگ نہ کے بیانیے کی شکست کہا جائے یا اس بات کا اعتراف کہ سیاست داں ایک دوسروں پر اعتبار کرنے کو تیار ہیں نہ سول اداروں پر، لاکھ شکایات کے باوجود انھیں اس ادارے ہی پر اعتماد ہے جس کی وہ شکایتیں کرتے رہتے ہیں۔ یہ بیانیے کی شکست ہے یا اعتراف…مسلم لیگ ن جانے، لیکن اس میں تو دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ یہ کُھلا تضاد ہے۔
اس ضمنی انتخاب کے ذریعے سامنے آنے والا دوسرا پہلو نہایت کم ٹرن آؤٹ ہے۔ جس انتخاب میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر جیتنے والے کے حق میں بیلٹ باکسز سے صرف 16 ہزار156 پرچیاں نکلی ہوں اس انتخاب کو جمہوریت کا آئینہ دار کیسے کہا جاسکتا ہے اور ایسے انتخابات میں جیتنے والے کو اپنے حلقے کے عوام کا حقیقی نمائندہ کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ تین لاکھ سے زیادہ ووٹرز کے حلقے میں اتنے کم ووٹوں کا پڑنے کا معاملہ ایک طرف، کیا یہ سانحہ نہیں کہ جس امیدوار کو حلقے کی بھاری اکثریت نے ووٹ نہیں دیے، وہ صرف اس بنیاد پر ان کا امیدوار قرار پایا کہ اس کے مخالف ووٹ مختلف امیدواروں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ اس طرح کی انتخابی کام یابیاں جمہوریت کی روح کے خلاف ہیں۔ اس صورت حال کو متناسب نمائندگی کا اصول لاگو کرکے تبدیل کیا جاسکتا ہے لیکن اسٹیٹس کو کی حامی جماعتیں اتنی بڑی تبدیلی کے لیے تیار نہیں۔ یہ تو بہت بڑی تبدیلی ہے ہماری یہاں تو چھوٹی چھوٹی انتخابی اصلاحات پر اتفاق نہیں ہوپارہا۔
حلقہ این اے 249 میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں کم ٹرن آؤٹ اس بات کی بھی نشاندہی کر رہا ہے کہ کراچی کے عوام سیاسی جماعتوں اور سیاسی نظام سے مایوس ہوتے جارہے ہیں۔ ووٹ کا حق استعمال نہ کرنا غیرذمے داری ہی نہیں مایوسی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ کراچی کے بڑھتے ہوئے مسائل اور شہریوں کی آواز کا صدا بہ صحرا ثابت ہونا انھیں سیاسی جماعتوں اور قیادتوں سے ناامید کرتا جارہا ہے۔ اس مایوسی کا واضح اظہار اس ضمنی الیکشن میں بھی نظر آیا۔ سیاسی قیادتیں، جمہوری نظام، انتخابات کے ذریعے ہونے والی تبدیلیاں اور ووٹ کی طاقت عوام کے لیے روشنی کی کرنیں اور امید کے دیے ہوتے ہیں، اگر عوام سیاسی جماعتوں اور انتخابی عمل سے مایوس ہوجائیں تو یہ کوئی نیک شگون نہیں بلکہ یہ سیاستدانوں اور ریاست کے لیے لمحہئ فکریہ ہے۔ اس حلقے میں مہاجروں یا اردو بولنے والوں کی بڑی تعداد کے ساتھ کثیر تعداد میں پنجابی، پشتو اور دیگر زبانیں بولنے والے پاکستانی بستے ہیں، یوں یہ حلقہ پورے پاکستان کا عکس ہے، جس کے رائے دہندگان کی اکثریت کا پولنگ کے دن ووٹ دینے کا اپنا حق استعمال نہ کرنا صرف کراچی نہیں پورے ملک کے عوام کے جذبات اور احساسات کی عکاسی کررہا ہے۔
اس حلقے کے ضمنی انتخاب میں جو کچھ ہوا وہ ایک بار پھر ہمیں شدت سے احساس دلا رہا ہے کہ ہمارے ملک کو انتخابی اصلاحات کی شدت سے ضرورت ہے۔ ایسی انتخابی اصلاحات جو انتخابات کے عمل کو شفاف بنائیں اور اس پر لوگوں کے اعتماد میں اضافہ کریں۔ اس ضمن میں حکومت کوششیں کر رہی ہے اور سنجیدہ نظر آتی ہے، حزب اختلاف کی جماعتیں بھی کم ازکم اس ایک ایشو پر سنجیدگی اور بردباری کا مظاہرہ کریں تو ہم ہر الیکشن کے بعد چھا جانے والے الزامات کے غبار اور شکوک کی دھند سے محفوظ ہوسکیں گے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔