موٹروے زیادتی کیس کے مجرمان کو سزائے موت سنادی گئی!

لاہور: موٹروے پر خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے مجرمان کو سزائے موت سنادی گئی۔
چند روز قبل موٹروے زیادتی کیس کی سماعت مکمل ہوئی تھی، انسداد دہشت گردی عدالت کے ایڈمن جج ارشد حسین بھٹہ کیمپ جیل میں فیصلہ سنانے کے لیے پہنچے تو دونوں ملزمان بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
عدالت نے مقدمہ میں 37 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے۔ گواہوں میں متاثرہ خاتون اور مقدمہ مدعی کا بیان بھی قلم بند کیا گیا۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے دونوں ملزمان کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے عابد ملہی اور شفقت بگا کو سزائے موت سنانے کا حکم دے دیا۔ ملزمان کو 365 کے مقدمے میں ایک بار عمر قید سنائی گئی جب کہ 362 دفعات مین دونوں ملزمان کو 14,14 سال سزا سنائی گئی۔ ملزمان کی جائیداد ضبط کرنے کے ساتھ 50.50 ہزار روپے جرمانہ کا بھی حکم دیا گیا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے فیصلہ سناتے ہی مجرم عابد ملہی رو پڑا اور معافیاں مانگتا رہا۔ مجرم عابد ملہی نے دُہائی دیتے ہوئے کہا کہ اپنے کیے پر شرمندہ ہوں۔
کیمپ جیل کے باہر پراسیکیوشن کی ٹیم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عابد ملہی اور شفقت کو دفعہ 376 کے تحت سزائے موت سنائی گئی۔ دونوں کو دفعہ 365 اے کے تحت عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ دفعہ 362 کے تحت 14 ،14 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
خیال رہے کہ چند روز قبل مقدمہ میں ملوث ملزمان عابد ملہی اور شفقت کے 342 کے بیان پر وکلا کی جرح مکمل ہو گئی تھی۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے ایڈمن جج ارشد حسین بھٹہ کیمپ جیل میں سماعت کررہے تھے، ملزمان اپنے بیان میں وقوعہ سے منحرف ہوگٸے تھے۔ عدالت نے مقدمہ کے تمام گواہوں کا بیان قلم بند کرکے ملزمان کے بیان قلم بند کیے۔ دوران سماعت رنگ روڈ زیادتی کیس کی متاثرہ اور مدعی کا بیان بھی قلم بند کیا گیا متاثرہ خاتون نے تین گھنٹے سے زاٸد جیل میں موجود رہ کر بیان قلم بند کرایا تھا۔
خیال رہے کہ 9 ستمبر 2020ء کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔
لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو قریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئی تھیں، ان کی گاڑی کا پٹرول ختم ہوگیا تھا۔
اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جب کہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔
تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظام کرنے کی کوشش کر رہی تھیں تو 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعدازاں ان مسلح ملزمان نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ ملزمان جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔
اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔
تاہم اس واقعے کے بعد اس وقت کے سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سی سی پی او نے کہا تھا کہ خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالا جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پٹرول چیک کرلیں۔
بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماعی زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔
یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیر قانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔
13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔
14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔
15 ستمبر کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سیالکوٹ موٹر وے پر دوران ڈکیتی خاتون سے زیادتی کے ملزم کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔ بعد ازاں موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو 12 اکتوبر کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔
گینگ ریپ کے واقعے کے ملزمان کی نشان دہی کے چند روز بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران آئی جی پنجاب انعام غنی نے کیس کی تحقیقات میں پیش رفت سے متعلق بتاتے ہوئے کہا تھا کہ عابد علی بہاولنگر کے علاقے فورٹ عباس کا رہائشی ہے، ملزم کے گھر پر چھاپے کے دوران عابد اور اس کی بیوی کھیتوں میں فرار ہوگئے، اس کی بچی ہمیں ملی ہے۔ چار رکنی گینگ کا سربراہ عابد پنجاب کے مختلف تھانوں میں درج 10 دیگر مقدمات میں بھی پولیس کو مطلوب تھا۔
پولیس نے 21 اکتوبر کو بتایا کہ کیمپ جیل میں ملزم کی شناخت پریڈ کا عمل مکمل کیا گیا جہاں متاثرہ خاتون نے ملزم کی شناخت کرلی۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔