سُلگتا کشمیر اور یوم حق خود ارادیت

میر عبدالصمد بروہی

گرم ہوجاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو
تھرتھراتا ہے جہان چار سوئے رنگ و بو
پاک ہوتا ہے ظن و تخميں سے انساں کا ضمير
کرتا ہے ہر راہ کو روشن چراغ آرزو
(علامہ اقبال)
دنیا کے نقشے پر ایک طویل جنگ و جدل، جدوجہد، بے شمار جانوں کی قربانی کے صورت میں ایک آزاد مسلم ریاست کا جنم ہوا، جس آزادی کے حصول کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے گردنیں کٹوادیں، انگریز سامراج کے ظلم و ستم کا جواں مردی کے ساتھ مقابلہ کیا۔
مسلمانوں کی طویل جدوجہد کا مقصد ایک ایسی ریاست کا وجود تھا، جس میں مسلمانوں کے حق خودارادیت اور ایک کلمے کے نیچے زندگی آزادی کے ساتھ گزاری جاسکے۔

اگست "1947”میں تقسیم ہند کے بعد انگریز سامراج سے آزادی ضرور ملی، مگر مسلم اکثریتی علاقوں کو انگریزوں نے جان بوجھ کر اس طرح تقسیم کیا کہ اس خطے میں امن قائم نہ ہوسکے۔ انگریزوں کے جانے کے بعد پاکستان اور بھارت دو الگ آزاد ممالک بن کر دنیا کے نقشے پر آگئے، مگر اس آزادی کے فوری بعد کشمیر کا مسئلہ شروع ہوا۔
کشمیری مسلمانوں نے مکمل طور پر مسلم ریاست کے ساتھ الحاق کے لیے جدوجہد شروع کی، جس پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کا آغاز ہوا۔ کشمیری عوام نے بھارتی تسلط کو چیلنج کرکے جدوجہد جہاد شروع کی تو ان پر بھارتی قابض افواج نے ظلم کے پہاڑ توڑے۔

کشمیر کا مقدمہ پاکستان نے ہر فورم پر لڑنے کی بھرپور کوشش کی، پاکستان اس مقدمے کو عالمی سطح پر اقوام متحدہ کے فورم پر لے کر گیا، جہاں 5 جنوری 1949 کو پاکستان کی شاندار کاوشوں اور کشمیری عوام کی جدوجہد کو پہلی کامیابی یہ ملی کہ "اقوام متحدہ” کے فورم سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کرکے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا۔
اس قرارداد کے متن میں باقاعدہ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ ایک کمیشن بناکر ان کی رائے شماری ریفرنڈم کی صورت میں کیا جائے گا کہ کشمیری عوام کس ملک کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا اپنی ذاتی آزاد مملکت کی حصول کے لیے ان کی جدوجہد ہے۔ اس لیے 5 جنوری کو دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری عوام اپنا یوم حق خود ارادیت مناتے ہیں۔
بدقسمتی و افسوس ناک امر کہ 72 سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود عالمی ادارہ اپنی منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کراسکا، جس کی وجہ سے کشمیری مسلسل شدید مشکلات کا شکار ہیں اور بھارت کشمیریوں کو اپنے پیدائشی حق، حق خود ارادیت کا مطالبہ کرنے پر بدترین ریاستی دہشت گردی اور مظالم کا نشانہ بنا رہا ہے۔

5 جنوری کو ہر سال دنیا بھر میں انسانی حقوق کے ماننے والے، کشمیری عوام سے ہمدردی رکھنے والے، سیاسی اقابرین، عمائدین، طلباء رہنما اس لیے زور شور سے اس دن کو مناتے ہیں، تاکہ عالمی طاقتور ترین تنظیم اقوام متحدہ کے سامنے انہی کی منظور کردہ قرارداد کی خلاف ورزی کو رکھا جائے، ان کو یہ یاد کرانے کی ایک کوشش ہے کہ ادارہ برائے سلامتی کونسل و انسانی حقوق اپنی قرارداد پر کشمیر میں بھارتی مظالم پر اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کریں مگر شاید عالمی ادارہ بھی اس ضمن میں اپنی ہی منظور کردہ قرارداد پر عمل درآمد کرانے میں آزاد دکھائی نہیں دیتا۔
1949 کے عالمی سطح پر کشمیر کی آواز کو پاکستان کی صورت میں کامیابی ملنے کے بعد عالمی دباؤ اور پاکستان کی شاندار خارجہ پالیسی کے تحت 1954 میں کشمیر کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت اسپیشل اسٹیٹس دیا گیا، جس میں سب آرٹیکل (35اے اسٹیٹ سبجیکٹ رول) باشندہ ریاست کے قانون جو 1928 میں بنایا گیا تھا، اسے کشمیریوں کے لیے لاگو کیا گیا، جس کا مقصد تھا جائیداد کی خریدو فروخت صرف باشندہ ریاست کا حق ہوگا، باہر سے کسی کو کشمیر کی حدود میں جائیداد خریدنے کی اجازت نہ ہوگی، تاہم بھارتی درندہ صفت وزیراعظم نریندر مودی اور بھارت کی نام نہاد سیکولر ریاست نے بالآخر کشمیریوں کا اسپیشل اسٹیٹس بھی ختم کرکے بھارتی ہندوؤں کو زبردستی کشمیر پر مسلط کرنے کی سازش شروع کی تاکہ کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کی جائے۔ بھارتی شہریوں، انتہاپسند تنظیموں کے گروہوں کی آباد کاری کرکے یہاں مزید ظلم و ستم کا دائرہ کار وسیع کیا جاسکے۔

کشمیر میں جاری بھارتی جارحیت کے خلاف آج دنیا بھر میں ہر فورم پر پاکستانی و کشمیری اپنا مقدمہ لڑنے کی بھرپور کوشش میں مصروف عمل ہیں، وہیں بھارت اور اس کے ہمنوا انسانی حقوق کی شدید پامالی کرکے اس ضمن میں اٹھنے والی ہر آواز کو بندوق و طاقت کی بنیاد پر دبانے کی پر ممکن کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں، تاہم اس ضمن میں عالمی برادری کا خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنا بھی کشمیر کے سینے پر ایک اور زخم کی مانند ہے۔
آج دنیا کے کسی خطے میں کسی ایک جانور کا حق غصب کیا جائے تو اس پر سلامتی کونسل میں بحث چھڑ جاتی ہے مگر کشمیر میں گزشتہ 73 سال سے سلامتی کونسل کی ایک منظور شدہ قرارداد پر عمل درآمد نہ ہونا باعث تشویش و مضحکہ خیزی کے مترادف ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو چاہیے کہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرکے کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا جو وعدہ تھا وہ پورا کیا جائے، مسئلہ کشمیر کا واحد، دیرپا اور مستقل حل صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے سے ہی ممکن ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پس پشت ڈال کر دنیا و عالمی تنظیم کی وقعت پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔
دُنیا کے ممالک کی مشترکہ تنظیم ان عالمی انسانیت سوز واقعات پر اپنا ایکشن پلان مرتب کرکے اس ضمن میں بھارت کی ہٹ دھرمی پر اسے پابند کرے کہ وہ عالمی قراردادوں کی روشنی میں کشمیر میں ریفرنڈم کروانے پر آمادہ ہو، تاکہ مسئلہ کشمیر کا حل جلد ممکن ہوسکے، کشمیر میں جاری دل سوز واقعات اور انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کا خاتمہ ہوسکے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔