غریب موچی سے دنیا کے بڑے جفت ساز ادارے تک کا سفر

ثنااللہ خان احسن

اٹا کی کہانی ۔پہلے باٹا پھر اسکول: پاکستان اور بھارت میں باٹا سے کون واقف نہیں۔ ہم تو کیا ہمارے والد اور شاید دادا بھی باٹا کے جوتے پہنتے ہونگے۔ بچپن میں اسکول شوز تو ہمیشہ باٹا کے ہی لئے جاتے تھے۔ باٹا کے جوتے معیار اور مضبوطی میں بے مثال تصور کئے جاتے تھے۔ پاکستان میں تو باٹا کے نام سے باٹا پور بھی ہے۔ آخر یہ باٹا ہے کیا اور کہاں سے شروع ہوا؟ آج ہم بتاتے ہیں آپ کو باٹا کی کہانی۔

باٹا شوز کمپنی کا بانی ٹامس باٹا

باٹا کی کہانی آج سے چار سو سال پہلے سن 1620 میں چیکو سلواکیہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے شروع ہوئی جہاں باٹا نامی خاندان نے موچی کا کام شروع کیا۔ یہ خاندان تقریباً تین سو سال تک اسی جگہ جفت سازی کا کام کرتا رہا۔ بالآخر اس خاندان کی آٹھویں پیڑھی میں ایک نوجوان، جس کا نام ٹامس باٹا تھا، نے سنہ 1894 میں اپنے آبا کے پیشے کو بڑے پیمانے پر شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ جفت سازی آبائی پیشہ ہونے کی وجہ سے ٹامس کے لیے آسان تھا۔ جس کی وجہ سے اس نے اسی کو اپنایا۔

تقریباً 3 سو سال سے یہ کام ان کے خاندان میں چلا آ رہا تھا لیکن کسی نے اس میں ترقی کی طرف توجہ نہ دی اور اس کاروبار کو پھیلانے کی کوشش بھی نہ کی جیسا کہ ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ باپ دادا سے ایک دکان چلی آ رہی ہے۔ اولاد میں وراثت کے طور پر تقسیم ہو جاتی ہے۔ وہ دکان بڑی ہونے کے بجائے مزید ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے، لیکن کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ اس کاروبار کو پھیلایا اور بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔ ٹامس نے خاندانی روایت کو توڑنے کے لیے کارخانے کی بنیاد رکھی اور اپنے ساتھ 10 ملازمین بھی رکھ لیے۔ ایک سال یہ کام چلا ہو گا کہ ٹامس قرض کے بوجھ تلے دبنے لگا اور مالی پریشانیوں نے اسے آگھیرا۔ اسے ہر قدم پر ناکامی ہو رہی تھی۔ لوگ اس کے بنائے ہوئے جوتے نہیں خریدتے تھے اور ملازمین بھی اس سے خوش نہ تھے۔ ٹامس ہمت ہار کے گھر بیٹھ گیا۔ دکان پر جانا چھوڑ دیا اور پریشان سا رہنے لگا۔ انہی دنوں ایک شناسا بوڑھے مزدور سے ملاقات ہوئی۔ اس نے اس کے چہرے سے پریشانی بھانپ لی اور وجہ پوچھی تو ٹامس نے ساری صورت حال بتا دی۔ بوڑھے مزدور نے کہا، ’’بیٹا، ہمیشہ تم یہ خیال کیا کرو کہ میری پروڈکٹ مہنگی ہے اور مزدوروں کو ان کی محنت سے کم تنخواہ دے رہا ہوں۔ اس طرح تم یہ کوشش کرتے رہو گے کہ کس طرح میری پروڈکٹ سستی ہو اور میرے مزدوروں کو زیادہ تنخواہ ملے۔‘‘ یہ بات تیر کی طرح ٹامس کے دل کو لگی اور اس نے ہمیشہ کے لیے اس پر عمل کرنے کی ٹھان لی۔

ٹامس نے چمڑے کے جوتے بنانے کے ساتھ موٹے کپڑے یعنی کینوس سے جوتے تیار کرنے لگا جو سستے پڑتے تھے اور لوگوں نے بھی انہیں بہت پسند کیا۔ ان جوتوں کی مقبولیت اور مانگ بڑھنے سے ملازمین کی تعداد 10 سے 50 ہو گئی۔ ٹامس نے اپنی پروڈکٹ کے سستے ہونے کی طرف توجہ دی۔ اس طرح ملازمین کی بھی اجرت کا خیال رکھا۔باٹا کی قیمت:ٹامس نے باٹا پرائس بھی متعارف کروائی۔ ان کی پروڈکٹ کی قیمت 9 کے ہندسے پر ختم ہوتی ہے۔ کسی چیز کی قیمت 99 یا 19.99 روپے ہو گی، جو دیکھنے میں 100 اور 20 سے اچھی لگتی ہے، حالانکہ ایک عدد کا فرق پڑتا ہے۔

چار سال میں باٹا شوز کمپنی کا کام اس حد تک بڑھ گیا کہ اب مشینوں کی ضرورت پڑ گئی کیونکہ اس کے علاوہ ڈیمانڈ پوری نہیں کی جا سکتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ اب آٹومیشن کا دور آگیا ہے۔ مشینوں اور ٹیکنالوجی سے آپ کم وقت اور قلیل خرچ سے زیادہ پروڈکٹ بنا سکتے اور منافع کما سکتے ہیں۔ ‎ٹامس باٹا ہمیشہ ایک تاجر کی طرح سوچتا رہتا تھا کہ اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے وہ کیا کر سکتا ہے۔ وہ کاروباری حضرات سے مشاورت بھی کرتا۔ 1904ء میں اس نے اپنی کمپنی میں مکینکل پروڈکٹ تکنیک متعارف کروائی۔ اس طرح جلد ہی باٹا شوز کمپنی یورپ کی پہلی بڑی جفت ساز کمپنی بن گئی۔ 1912ء میں اس کی کمپنی کے ملازمین 600 ہو چکے تھے جو اس کی ترقی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

سنہ 1914ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی۔ یہ ٹامس کے لیے قرعہ فال ثابت ہوئی۔ اس کے پاس جرمن فوج کے جوتے بنانے کے آرڈر آنے لگے۔ 1914ء سے 1918ء تک اسے پہلے سے دس گنا زیادہ ملازمین رکھنے پڑگئے۔ کاروباری دنیا میں کامیابی کے ساتھ پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ جنگ کے بعد اس کا کاروبار بہت مندا ہو گیا، لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ 1925ء میں پھر سے بزنس عروج کی طرف بڑھنے لگا۔ ٹامس کی باٹا کمپنی زیلن میں تھی۔ اب یہ ایک شہر کی صورت اختیار کر گیا۔ کمپنی بھی کئی ایکڑ زمین پر پھیل چکی تھی۔ ٹامس باٹا 1932 ء میں 56 سال کی عمر میں جہاز کے ایک حادثے میں انتقال کرگیا۔ وہ خود تو اس دنیا سے چلا گیا، لیکن آج بھی اس کے لگائے ہوئے درخت سے دنیا بھر کے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔

سویٹزر لینڈ کے شہر لوزانے لارنس میں قائم باٹا شو کمپنی کے ہیڈ آفس کا بیرونی منطر

باٹا کی دنیا میں مقبولیت
آج باٹا کا ہیڈ کوارٹر سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزانے لارنس میں ہے۔ دنیا کے 18 ممالک میں باٹا کی فیکٹریاں قائم ہیں اور دنیا بھر کے 70 سے زائد ممالک میں 5200 سے بھی زیادہ اسٹورز ہیں۔ 1930 میں بھارت کے شہر کلکتہ میں بھی باٹا نگر قائم کیا گیا، جہاں 7500 کے قریب ملازمین کام کرتے ہیں۔ باٹا شو کمپنی بھارت کی پہلی شو کمپنی ہے جسے 1993 میں آئیس ایس سو 9001 کا سرٹیفکیٹ دیا گیا۔ ٹامس باٹا کی یہ پالیسی تھی کہ دنیا میں جہاں بھی باٹا فیکٹری لگائی جائے اس کے نزدیک ایک مثالی قصبہ بھی قائم کیا جائے جہاں لوگوں کو تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی باٹا کی فیکٹری قائم ہے اس کے قریب ہی باٹا کے نام سے ایک قصبہ موجود ہے، جیسے کہ بھارت میں باٹا نگر، پاکستان میں باٹا پور، ہالینڈ میں باٹا ڈروپ، فرانس میں باٹا ولا اور ایسے ہی مزید کئی شہر باٹا کے نام سے قائم ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق آج باٹا روزانہ تقریبا دس لاکھ گاہکوں کو نمٹاتا ہے۔ باٹا خاص طور پر انڈیا، پاکستان، یورپ آسٹریلیا اور تقریبا پورے ایشیا میں اپنی دھاک بٹھائے ہوئے ہے۔ ٹورنٹو کینیڈا میں اسی خاندان کے ایک فرد سونجا باٹا نے باٹا شو میوزیم بھی قائم کیا ہے۔ باٹا رفاحی اور فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ شاید باٹا کے قائم و دائم رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔