کرکٹر جو سب سے منفرد تھا
کرکٹ ایک ایسا واحد کھیل ہے جو جنوبی ایشیا میں جنون کی حد تک کھیلا اور دیکھا جاتا ہے۔ کرکٹ کی ہار اور جیت کو یہاں کے لوگ اس قدر سنجیدہ لیتے ہیں کہ شکت پر گھر کا سامان تک توڑ دیتے ہیں، بعض دیوانے تو اپنی جان کا نقصان بھی کر بیٹھتے ہیں۔ یہی جنونی شا ئقین جیت پر اپنی ٹیم کو سر پر بٹھا لیتے ہیں، ان کے صدقے اتارتے ہیں، کسی بڑے ایونٹ میں جیت کے بعد ملک میں جشن کا سماء ہوتا ہے ۔
صاحب یہ کھیل ہی ایسا ہے دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ سوچیں جب دیکھنے والے اس قدر دیوانے ہوتے ہیں تو کھیلنے والوں کو اس کھیل سے کس قدر لگاوُ ہوگا؟ ایک ایسا ہی منفرد کھلاڑی جو کرکٹ میں سب سےالگ تھا۔ ایسا کھلاڑی تاریخ میں آیا اور نہ کبھی آ ئے گا ۔ کرکٹ سے اس کی محبت، اس کا لگاوُ بے مثال تھا۔ میں بات کر رہا ہوں لیجینڈری بلے باز جاوید میانداد کی۔
جاوید میانداد نے بین الاقومی ٹیسٹ کیریئر کا آغاز 19 سال کی عمر میں کیا۔ آپ نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ نیوزی لینڈ کے خلاف قذافی اسٹیڈیم لاہور میں 9 اکتوبور 1976 کو کھیلا اور اپنے ٹیسٹ کیریئر کی پہلی ہی اننگز میں، میچ کے پہلے ہی دن، سینچری بنا کر شائقینِ کرکٹ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور اپنے آئندہ آنے والے یادگار کیریئر کی بنیاد رکھی۔ اس ٹیسٹ سینچری نے ان کو دو یادگار ریکارڈ دیے، ایک تو یہ کہ وہ عباد اللہ کے بعد دوسرے پاکستانی بلے باز بن گئے جنہوں نے اپنے پہلے ٹیسٹ میں سینچری اسکور کی۔ دوسرے یہ کہ وہ اس وقت سب سے کم عمر ٹیسٹ سینچری بنانے والے بلے باز گئے، اس وقت میانداد کی عمر 19 سال اور 119 دن تھی، اب یہ عالمی ریکارڈ ان کے پاس نہیں بلکہ بنگلہ دیش کے کھلاڑی محمد اشرافل کے پاس ہے جنہوں نے 17 سال اور 61 دن کی عمر میں ٹیسٹ سینچری اسکور کی۔
جاوید میانداد کا بین الاقوامی کرکٹ کیریئر تقریباً 21 سالوں پر محیط ہے اور ایک روزہ بین الاقومی میچوں میں ابھی تک کسی بھی کھلاڑی کا، 20 سال اور 272 دنوں کے ساتھ سب سے لمبا کیریئر ہے ۔ جاوید میانداد اپنے پورے کیر میں اپنے منفرد انداز اور دلچسپ حرکتوں کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ جاوید میانداد کے قصے پوری دنیا میں بے حد مشہورہیں۔ دوران کرکٹ وہ میدان میں اپنی مقابل ٹیموں کے ساتھ ایسی عجیب و غریب اور دلچسپ حرکتیں کرتے تھے جسے دیکھ کر مخالف ٹیم بھی ہنسنے پر مجبور ہو جاتی تھی۔
بھارتی لیجینڈری بلے باز سنیل گاوسکر بتاتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بینگلور میں ٹیسٹ میچ کھیلا جا رہا تھا۔ بھارتی اسپینر بالر جاوید میانداد کو بالنگ کر رہا تھا۔ جاوید میانداد چونکہ سامنے والے کھلاڑی کی نفسیات سے کھیلتے تھے، انہیں کنفیوژ کرتے تھے اس لئے انہوں نے ہر دوسری بال پر بالر سے پوچھنا شروع کردیا ‘تیرا روم نمبر کیا ہے’۔ سنیل گاوسکر کہتے ہیں کہ میں اسٹمپ پر کھڑا تھا اور سید کرمانی کیپرنگ کر رہے تھے۔ سید کرمانی نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے جس پر سنیل گاوسکر نے جواب دیا کہ یہ جاوید میانداد نے شروع کیا ہے وہی ختم کرے گا۔ گاوسکر نے بتایا کہ جب ہر دوسری بال پر وہ بالر کو مستقل بولتے رہے کہ تیرا روم نمبر کیا ہے، تیرا روم نمبر کیا ہے تو بالر غصے میں آکر پوچھنے لگا روم نمبر کیوں چاہیے؟
اس سوال پر جاوید میانداد نے بہت دلچسپ جواب دیا، جاوید میانداد نے جواب دیا کہ تیرے روم میں چھکا لگانا ہے۔ سنیل گاوسکر کہتے ہیں کہ یہ سن کر ہم سب ہنس پڑے کیوں کہ باوُنڈری کہیں اور تھی اور ہماری ہوٹل کہیں اور تھی۔ جاوید میانداد اس طرح جواب دے کر بالرز کو کنفیوژ کرتے تھے۔
سنیل گاوسکر ایک اور قصہ سناتے ہو ئے کہتے ہیں کہ اسی میچ میں جاوید میانداد نے ایک اور دلچسپ حرکت کی۔ وہی بالر جاوید میانداد کو لیگ پر ہی پھینک رہا تھا، جاوید میانداد نے ہر بال پر شاٹ لگانے کی کوشش کی لیکن ہر بار گیند فلڈر کے ہاتھ میں آجاتی۔ جاوید میانداد نے فیصلہ کرلیا کہ اب وہ بال کھیلیں گے، نہیں پیڈ سے بال روک لیں گے۔ چنانچہ جاوید میانداد نے ہر بال کو پیڈ سے روکنا شروع کردیا اور ساتھ میں منہ سے بھئو بھئو کی آوازیں نکالنے لگے۔ اب یہ آوازیں سن کر سب حیران ہو گئے کیوں کہ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹیسٹ میچ ہو رہا تھا جسے پوری سنجیدگی سے کھیلا جاتا ہے لیکن جاوید میانداد تو پھر جاوید میانداد ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ وہ جب ہر بال پر بھئو بھئو کرنے لگے تو امپا ئر نے پوچھ لیا کہ یہ بھئو بھئو کیوںکر رہے ہو ؟
جاوید میانداد نے پھر دلچسپ جواب دے کر سب کو ہنسنے پر مجبور کردیا۔ جاوید نے جواب دیا بھئو بھئو نہیں کروں تو کیا کروں، کتے جیسی میری ٹانگ پکڑی ہو ئی ہے وہیں بال کرا ئے جا رہا ہے اسے ٹھیک سے بال کرنے کو بولو۔ گاوسکر کہتے ہیں کہ یہ سن کر ہم سب ہنس پڑے۔ گاوسکر نے مزید کہا کہ جاوید جیسا کھلاڑی کسی بھی ٹیم کی جان ہوتا ہے، وہ کرکٹ اور اپنے وطن سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ کھیل کے میدان میں بھی جذباتی ہو جاتے تھے۔
بھارت کے آل راوُنڈر اسٹار اور سابق کپتان کپیل دیو نے پاکستانی کھلاڑیوں کے بارے میں بتایا کہ ہمارے وقت میں پاکستان کے پاس بہت بڑے اور کمال کے کھلاڑی تھے۔ کپیل دیو نے بھارتی چینل کو انٹرویو دیتے ہو ئے کہا تھا کہ پاکستان کی ٹیم ہماری ٹیم سے بہت مضبوط تھی۔ کپیل دیو نے جاوید میانداد کے بارے میں بات کرتے ہو ئے کہا تھا کہ ہر کپتان کی خواہش ہوتی تھی کہ اس کی ٹیم میں جاوید میانداد جیسا کھلاڑی ہو۔ جاوید میانداد اس جوش سے کھیلتے تھے کہ انہیں دیکھ کر ٹیم کے دوسرے کھلاڑی بھی جوش میں آجاتے تھے اور کرکٹ میں اسی طرح کے جوش کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستان کے سابق کپتان اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی اکثر جاوید میانداد کی تعریف کرتے رہتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں جب بھی مایوس ہوتا یا مجھے ایسا لگتا کہ میں میچ ہار جاوُں گا تب میں جاوید میانداد کو دیکھ لیتا۔ جاوید میانداد کو دیکھ کر مجھےہمت آجاتی تھی اور ہم مل کر پھر لڑتے تھے اور جیتتے تھے۔ عمران خان نے ایک تقریب میں یہ بھی بتایا تھا کہ میں اپنی کرکٹ کے آخری تین سال صرف شوکت خانم کے لئے کھیلا ۔ جب بھی ٹیم کو کو ئی انعام یا پیسہ ملتا تھا وہ میں شوکت خانم کو چندہ کر دیتا تھا اور جاوید میانداد کو آگے کر دیتا تھا کہ ٹیم کو سمجھاوُ مجھے ہسپتال بنانے کے لئے پیسوں کی ضرورت ہے ، پھر جاوید ساری ٹیم کو سمجھاتا تھا۔
جاوید میانداد کی بہت سے قصے ہیں وہ اکثر گراوُنڈ میں مختلف قسم کی حرکتیں کرتے رہتے تھے۔ جیسے گراوُنڈ میں پیٹنگ کرتے وقت پچ پر اچھلنا، کودنا، دوسروں کی نقل کرنا، ان کا دھیان بھٹکانا، انہیں کنفیوژکرنا۔ وہ جو کچھ کرتے تھے اپنے ملک کے لئے کرتے تھے۔ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے کھلاڑی تھے۔ جاوید اپنے ملک سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور کرکٹ کو لے کر آج بھی اکثر جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ان کا جذباتی ہونا بھی وطن کی محبت کی خاطر ہے۔ ان جیسے محبت وطن لوگوں کی اس ملک کو بے حد ضرورت ہے۔
جاوید میانداد آج ہی کے 12 جون 1957 کو کراچی میں پیدا ہو ئے اور آج اپنا 65 واں یوم پیدا ئش منا رہے ہیں۔ ہم ان کے لئے دعا کرتے ہیں کہ وہ اسی طرح صحت مند رہیں اور اپنے ملک و قوم کی خدمت کرتے رہیں۔