دنیا کی نصف آبادی کا بڑھاپے تک ذہنی مسائل میں مبتلا ہونے کا اندیشہ
بوسٹن: دنیا کی نصف آبادی 75 برس کی عمر تک ڈپریشن یا بے چینی جیسی ذہنی صحت کے مسائل میں مبتلا ہوسکتی ہے۔ یہ انکشاف ایک نئی تحقیق میں ہوا ہے۔
ہارورڈ میڈیکل اسکول اور آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف کوئنزلینڈ کے محققین نے عالمی ادارہ برائے صحت کی جانب سے کیے جانے والے سروے کا دو دہائیوں تک معائنہ کیا۔ ان سروے میں 29 ممالک کے 1 لاکھ 56 ہزار سے زائد افراد میں ذہنی مرض کی تشخیص کے رجحان کو دیکھا گیا۔
معائنے میں یہ بات سامنے آئی کہ ہر دو میں سے ایک فرد بڑھاپے تک کم از کم ایک ذہنی مسئلے میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ شرح میں یہ اضافہ 2019 کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ 2019 میں یہ شرح ہر آٹھ میں سے ایک تھی۔
مجموعی طور پر مردوں میں کسی کے ذہنی مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات 46 فیصد جب کہ خواتین میں یہ شرح قدرے زیادہ 53 فیصد زیادہ تھی۔
خواتین کے بالخصوص پوسٹ ٹراماٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) میں مبتلا ہونے کے خطرات زیادہ تھے جب کہ مردوں میں شراب نوشی کے استعمال کے امکانات زیادہ تھے۔ اہم ڈپریسِیو بیماریوں اور مخصوص خوف کی شرح دونوں جنسوں میں برابر تھے۔
امریکا میں ذہنی بیماریوں کی شرح بلندی پر ہے، یہ صورت حال گزشتہ سال میں بدتر ہوئی ہے۔ اس عرصے میں خودکشیوں کی تعداد 45 ہزار 900 سے بڑھ کر 48 ہزار تک پہنچ گئی۔
تازہ ترین تجزیے میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ ذہنی صحت کا بحران صرف امریکا تک محیط نہیں ہے، لیکن دنیا کے دیگر حصوں میں بھی موجود ہے۔
اتنے بڑے پیمانے پر کیے جانے والے اس تجزیے کے محققین نے 2001 سے 2022 تک دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے 1 لاکھ 56 ہزار 331 افراد کا دوبدو انٹرویو لینے کے بعد ڈیٹا مرتب کیا۔
یہ انٹرویو عالمی ادارہ برائے صحت کے ذہنی صحت کے سروے کا حصہ تھے۔ اس سروے میں حاصل کیا جانے والا ڈیٹا 29 ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل تھا۔ ان ممالک میں امریکا، سعودی عرب، قطر، جاپان، اسرائیل، آسٹریلیا، نیو زیلینڈ، میکسیکو اور متعدد یورپی مملک، برطانیہ، جنوبی امریکا اور افریقا کے ممالک شامل تھے۔
خیال رہے کہ یہ تحقیق جرنل لانسیٹ سائیکیئٹری میں شائع ہوئی ہے۔