عدالت عظمیٰ کا راوی اربن ڈیولپمنٹ منصوبہ کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے راوی اربن ڈیولپمنٹ منصوبہ کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل کردیا اور حکومت کو راوی اربن منصوبہ پر کام جاری رکھنے کی اجازت بھی دے دی۔
نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ سے پنجاب حکومت کو بڑا ریلیف مل گیا، کیوں کہ عدالت عظمیٰ نے راوی اربن ڈیولپمنٹ منصوبہ کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل کردیا ہے جب کہ عدالت نے پنجاب حکومت کو راوی اربن منصوبہ پر کام جاری رکھنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ جن زمینوں کی مالکان کو ادائیگی ہوچکی، ان پر کام جاری رکھا جاسکتا ہے، لیکن جن زمینوں کے مالکان کو ادائیگی نہیں ہوئی وہاں کام نہیں ہوسکتا۔
عدالت نے حکومتی اپیلوں پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جائزہ لیں گے کہ فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل بنتی ہے یا نہیں، اگر انٹراکورٹ اپیل بنتی ہوئی تو کیس لاہور ہائی کورٹ بھجوا دیں گے۔
سپریم کورٹ میں راوی اربن ڈیولپمنٹ منصوبہ کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی، عدالت نے کیس کی تیاری نہ کرنے پر پنجاب حکومت کی قانونی ٹیم کی سرزنش کی، جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے میں کیا غلطی ہے۔ تاہم ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس عدالتی سوالات کے جواب نہ دے سکے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگوں کو یہ بھی علم نہیں کہ کیس ہے کیا۔ جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے ایڈووکیٹ جنرل صاحب آپ بغیر تیاری آئے ہیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ جس کیس میں فیصلہ دیا گیا پنجاب حکومت اس میں فریق نہیں تھی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ مجموعی طور پر 18 درخواستیں تھیں ایک میں فریق نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا، پنجاب حکومت نے اپنا موقف ہائی کورٹ میں پیش کیا تھا، تکنیکی نکات میں نہ جائیں ٹھوس بات کریں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ درخواستیں ماحولیاتی ایجنسی کی عوامی سماعت کے خلاف تھیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ کے مطابق منصوبے کے لیے زمینوں کا حصول بھی چیلنج کیا گیا تھا، صوبائی حکومت کے وکلاء عدالت میں غلط بیانی نہ کریں۔
وکیل روڈا نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ ہائی کورٹ نے آرڈیننس کے اجراء کو تفویض کردہ اختیار قرار دیا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ نے امریکی آئین کا حوالہ دیا ہے، امریکی اور پاکستانی حالات اور آئین مختلف ہیں۔ وکیل روڈا نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ میں درخواست گزار ہائوسنگ سوسائٹیز تھیں۔ جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ ہائوسنگ سوسائٹیز کا تو مفادات کا ٹکرائو واضح ہے۔
دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے کان میں ساتھیوں کی سرگوشیوں پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ کیس کی تیاری اپنے چیمبر میں کیا کریں، ہر دو منٹ بعد آپ کے کان میں کوئی سرگوشی کررہا ہوتا ہے۔ آپ لوگوں کو خود ہی سمجھ نہیں آرہی کہ کیس آخر ہے، اور دلائل کیا دینے ہیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔