وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کردیا

اسلام آباد: آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے 360 ارب روپے کا منی بجٹ وزیر خزانہ شوکت ترین نے قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔
نجی ٹی وی کے مطابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے فنانس سپلیمینٹری بل 2021 قومی اسمبلی میں پیش کردیا ہے، اس دوران ایوان میں اپوزیشن نے شدید ہنگامہ آرائی کی، اپوزیشن نے احتجاجاً بل کی کاپیاں پھاڑ دیں اور اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کرلیا، تاہم اسی شور شرابے میں وزیر خزانہ نے فنانس سپلیمنٹری بل 2021 سے پہلے ضمنی ایجنڈے کے تحت اسٹیٹ بینک کے حوالے سے بل پڑھ دیا۔ اسپیکر ڈائس کے سامنے شگفتہ جمانی اور حکومتی رکن غزالہ سیفی میں ہاتھا پائی بھی ہوئی۔
اجلاس میں الیکشن تیسری ترمیم کے آرڈیننس میں 120 دن کی توسیع کی قرارداد بھی منظور کرلی گئی، جس پر پیپلزپارٹی کے سید نوید قمر نے نکتہ اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ آج ایجنڈے میں مدت ختم ہونے کے بعد آرڈیننس لائے جارہے ہیں، 6 آرڈیننسوں کی مدت ختم ہوچکی، مگر لگتا ہے مُردے میں جان ڈالی جارہی ہے، اس ایوان میں نئی نئی روایتیں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
نوید قمر کے اعتراض پر بابر اعوان نے جواب دیا کہ قومی اسمبلی میں مدت سے آرڈیننس پیش ہوتے ہیں، رولز کے مطابق کارروائی چلائی جارہی ہے۔
اپوزیشن ارکان نے برقی توانائی پیداوار کے حوالے سے آرڈیننس کی مدت میں توسیع کی تحریک پر ووٹنگ کو بھی چیلنج کردیا۔ جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے زبانی ووٹنگ کے بجائے باقاعدہ ووٹنگ کا حکم دے دیا، اسپیکر نے قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والوں کو نشستوں پر کھڑے ہونے کا حکم دیا، تاہم اس پر قرارداد کے حق میں ووٹنگ کے بعد مخالفت کرنے والوں کی ووٹنگ ہوئی تو اپوزیشن کی طرف سے صرف تین ارکان مخالفت میں کھڑے ہوئے، اپوزیشن ارکان کی اکثریت گنتی میں کھڑی نہیں ہوئی۔ حکومت کی جانب سے بل کے حق میں 145 ووٹ دیے گئے۔
مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عوام کی زبان بندی کرکے معاشی خودمختاری بیچی جارہی ہے، مدت ختم ہونے والے آرڈیننسز کی مدت میں توسیع کی جارہی ہے، ٹیکس چھوٹ ختم کرکے عوام پر مہنگائی کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، پاکستان کو مت بیچیں پاکستان پر رحم کریں، تین سال سے دوائی، گندم اور چینی والوں کو لوٹ مار کی اجازت دی گئی، 22 کروڑ عوام کی آواز اٹھارہا ہوں میری آواز بند مت کریں، ایسٹ انڈیا کی حکومت آچکی ہے، پاکستان کی معاشی خودمختاری سرنڈر کرنا 1971 کے سرنڈر سے زیادہ خطرناک ہے، ساری قوم شرمسار ہورہی ہے کہ آج ایوان میں کیا ہورہا ہے۔
خواجہ آصف کے اظہار خیال پر اسپیکر قومی اسمبلی نے جواب دیا کہ میں نے آرڈیننس سے متعلق رولنگ دے دی ہے، میں نے رولز کے مطابق توسیع کی رولنگ دی ہے۔ خواجہ آصف نے ایک بار پھر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جو آرڈیننس ایکسپائر ہوچکے ان میں توسیع نہیں ہوسکتی، توسیع میعاد ختم ہونے سے پہلے ہوسکتی ہے، جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ آرڈیننس کی مدت میں توسیع کی قرارداد قانونی ہے۔
اس سے قبل منی بجٹ کی منظوری کے لیے وزیراعظم کی زیر صدارت کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں کابینہ نے فنانس ترمیمی بل 2021 کی منظوری دے دی۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق 144 اشیا پر ٹیکس لگے گا جو یا تو جی ایس ٹی سے مکمل طور پر مستثنیٰ ہیں یا ان پر 5 فیصد سے 12 فیصد ٹیکس عائد ہے۔ اب ان پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
ان اشیا پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانے سے ٹیکس وصولی 352 ارب روپے سے کہیں زیادہ ہوگی، کیونکہ بہت سی اشیا پر پہلی بار ٹیکس عائد کیا جائے گا اور ان سے حاصل ہونے والے ٹیکس تخمینے کا ایف بی آر کو اندازہ نہیں ہے۔
موبائل فون کالز پر انکم ٹیکس ریٹ 10 فیصد سے بڑھاکر 15 فیصد کرنے سے مزید 7 ارب حاصل ہوں گے، شیر خوار بچوں کی خاطر دودھ کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والے درآمدی خام مال پر زیرو ریٹنگ ٹیکس واپس لے کر اس پر بھی 17 فیصد سیلز ٹیکس لگایا جائے گا، جس سے ریونیو میں 9 ارب روپے اضافہ ہوگا۔ اس مد میں ٹیکس آمدن کا تخمینہ 15 ارب لگایا گیا ہے۔
شیرخوار بچوں کی اشیا کی مد میں بھی سیلزٹیکس لگایا گیا ہے اور اس سے بھی 6 ارب ریونیو حاصل ہوگا۔ ڈیوٹی فری شاپس کی اشیا پر بھی17 فیصد سیلز ٹیکس لگایا گیا ہے۔ چونکہ ان پر پہلی بار ٹیکس لگایا گیا ہے اس لیے حاصل ہونے والے ٹیکس کا تخمینہ نہیں لگایا جاسکتا۔
850 سی سی سے بڑی کاروں پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لگایا جائے گا جب کہ درآمدی الیکٹرک گاڑیوں کے سی بی یوز پر ٹیکس 5 فیصد سے بڑھاکر 17 فیصد کردیا جائے گا۔ بزنس ٹو بزنس ٹرانزیکشنز پر ٹیکس بھی 16.9 فیصد سے بڑھاکر 17 فیصد کیا جائے گا۔ ادویہ کے خام مال پر بھی 17 فیصد جی ایس ٹی لگایا جائے گا، جس سے سب سے زیادہ 45 ارب روپے حاصل ہوں گے۔
30 ارب روپے درآمدی مرحلے پر حاصل ہوں گے جب کہ 15 ارب روپے لوکل اسٹیج پر حاصل ہوں گے، تاہم ایف بی آر کا کہنا ہے کہ خام مال زیرو ریٹڈ ہی رہے گا اور ان پر ری فنڈ دیا جائے گا۔ بریڈ تیار کرنے والی بیکریوں، ریسٹورنٹس، فوڈ چینز اور دکانوں پر 17 فیصد ٹیکس لگایا جائے گا، جس سے 5 ارب روپے حاصل ہوں گے تاہم روٹی، نان، چپاتی، شیرمال بنانے والے تندور بدستور مستثنیٰ رہیں گے۔
میس میں تیار اور سرو کیے جانے والے کھانے، تیار شدہ کھانے اور مٹھائیاں تیار کرنے والے ہوٹلز، کیٹررز، دکانوں، ریسٹورنٹس پر 7.5 فیصد سے بڑھاکر17 فیصد کردیا جائے گا، جس سے ہوٹلنگ مہنگی ہوجائے گی۔
درآمد شدہ سبزیوں پر 7 ارب روپے ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ ریٹیل پیکیجنگ میں فروخت نہ ہونے والی سرخ مرچوں پر ٹیکس لگے گا۔ ملنگ انڈسٹری کے لیے اناج اور مصنوعات پر 5 ارب روپے ٹیکس عائد کیا جائے گا اور چاول، گندم اور میدہ کے آٹے کی مقامی سپلائی مستثنیٰ رہے گی۔ ماچس پر بھی17 فیصد کے حساب سے ٹیکس لگے گا۔
ڈیری پراڈکٹس، سوسیجز، مرغی کا گوشت اور اس کی دیگر مصنوعات جو کسی برانڈ نام یا ٹریڈ مارک کے تحت ریٹیل پیکنگ میں فروخت ہوتی ہیں ان پر بھی 17 فیصد ٹیکس عائدہوگا۔ برانڈ نام کے تحت خوردہ پیکنگ میں فروخت ہونے والے فلیورڈ دودھ، پر ٹیکس کی شرح دس فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دی جائے گی جس سے ایک ارب روپے ریونیو ملے گا۔ دہی، پنیر، مکھن، دیسی گھی، دودھ اور کریم پر بھی ٹیکس 10 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دیا جائے گا۔ ڈیری مصنوعات سے متعلق مشینری اور آلات پر 5 فیصد کے بجائے اب 17 فیصد ٹیکس لگے گا۔
موبائل فونز پر مقررہ شرح کے مقابلے میں 17% کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ خوردہ دکانوں سے کی جانے والی سپلائیز جو کہ ایف بی آر کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے ساتھ مربوط ہیں جن پر فی الحال 10% ٹیکس عائد ہے اب 16% ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ منجمد تیار یا محفوظ ساسیجز پر ٹیکس کی شرح 8 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد ہو جائے گی غیر ملکی حکومت یا تنظیم کی جانب سے تحفہ یا عطیہ کے طور پر موصول ہونے والی اشیاپر 17 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
قدرتی آفت کی صورت میں موصول ہونے والی تمام اشیا کی درآمد پر بھی ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ غیر منقولہ تحائف کے طور پر ڈاک کے ذریعے درآمد کیے گئے سامان پر 17 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
درآمد شدہ نمونے، مانع حمل ادویات اور لوازمات پر ٹیکس سے 200 ملین روپے ملیں گے۔ سلائی مشینوں پر 17 فیصد ٹیکس لگے گا۔ زندہ جانوروں اور زندہ مرغیوں کی درآمد پر پر 17 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا اور اس سے 700 ملین روپے کے محصول حاصل ہوں گے تاہم مقامی سپلائی اس سے مستثنیٰ رہے گی۔
کھیت کی تیاری کے آلات، بیج اور پودے لگانے، آبپاشی، نکاسی آب، اور زرعی کیمیکل کی تیاری، کٹائی، تھریشنگ کے آلات اور فصل کے بعد ہینڈلنگ کے آلات پر ٹیکس 5 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد ہو جائے گا۔ پولٹری سیکٹر کی مشینری پر جی ایس ٹی 7 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد، ملٹی میڈیا پراجیکٹس پر 10 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد ہو جائے گا، لیتھیم آئرن بیٹری پر ٹیکس 12 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد ہو جائے گی۔
چاندی اور سونے پر جی ایس ٹی 1 فیصد سے بڑھ کر 17 فیصد اور جیولری آرٹیکلز پر 17 فیصد ہو جائے گا۔ توانائی کے قابل تجدید ذرائع جیسے سولر اور ونڈ، آبپاشی کے آلات پر بھی ٹیکس لگے گا۔ آئل سیڈز کی درآمد پر ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دی جائے گی، کوئلے کی کان کنی سے متعلقہ BMR سسٹم کی مشینری اور آلات ، گیس پروسیسنگ پلانٹس اور آئل اینڈ گیس فیلڈ پراسپیکٹنگ، پلانٹ، مشینری، کانکنی کے آلات، کوئلے کی کان کنی کی مشینری، تھر کول فیلڈ کے لیے درآمد کیے جانے والے آلات پر 17 فیصد جی ایس ٹی لگے گا۔
حکومت پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت BMR یا بجلی کی پیداوار کے توسیعی منصوبوں کے لیے مشینری، آلات پر 14 ارب روپے ٹیکس عائد کیا جائے گا جبکہ BMR یا بجلی کی پیداوار کے توسیعی منصوبوں کے لیے مشینری، آلات اور اسپیئرز پر 17 فیصد جی ایس ٹی بھی عائد ہوگا جس سے 42 ارب روپے کی آمدنی ہوگی۔ اسی طرح اسی مد میں نیوکلیئر یا قابل تجدید توانائی کے وسائل سے بجلی کی پیداوار کے توسیعی منصوبوں پر 6 ارب روپے ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
ایفلوئنٹ ٹریٹمنٹ پلانٹس اور سولر انرجی کے ساتھ استعمال کی اشیاء پر 12 ارب روپے کے ٹیکس لاگائے جا رہے ہیں۔ 12 ارب روپے اضافی ریونیو حاصل کرنے کے لیے پلانٹ اور مشینری کی درآمد پر ٹیکس کی شرح 10 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کر دی جائے گی۔ حتی کہ پی او ایس مشین کی درآمد پر 17 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا ۔ برآمد شدہ سامان جو ایک سال کے اندر درآمد کیا جاتا ہے اس پر 3 ارب روپے کے ٹیکس عائد ہوں گے۔
موبائل فون کے مقامی مینوفیکچررز کی طرف سے موبائل فون کی تیاری کے لیے پلانٹ اور مشینری کی درآمد پر 17% جی ایس ٹی لگے گا۔ سمندر پار پاکستانیوں اور سیاحوں کی جانب سے درآمد کیے جانے والے ذاتی ملبوسات اور سامان، پر بھی ٹیکس لگے گا۔
زیرو ریٹڈ سیکٹر سے بھی سیلز ٹیکس چھوٹ مکمل ختم کئے جانے کا امکان ہے۔ سیلز ٹیکس 17 فیصد سے کم والی اشیاء پر بھی سیلز ٹیکس 17 فیصد تک کئے جانیکا امکان ہے جبکہ مخصوص شعبوں کو حاصل ٹیکس چھوٹ بھی ختم ہو سکتی ہے تاہم کھانے پینے کی اشیاء اورادویات پر ٹیکس چھوٹ برقرار رہے گی، لگژری اشیاء کی درآمد اوردرآمدی گاڑیوں پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کی سفارش ہے، ٹیکس وصولی ہدف 5829 ارب روپے سے بڑھا کر 6 ہزار 100 ارب کرنے کی تجویز ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس ریفائنری سٹیج پر لاگو ہوگا۔
علاوہ ازیں حکومت آئی ایم ایف شرائط پوری کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل بھی قومی اسمبلی اجلاس میں پیش کرے گی۔ 12 جنوری سے پہلے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد ضروری ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔