کراچی کا پرانا علاقہ آرام باغ
جب آپ مزار قائد ایم اے جناح روڈ سے ٹاور کی طرف آئیں گے تو ریڈیو پاکستان کراس کرنے کے بعد ایک اسٹاپ آئے گا جسے جامع کلاتھ مارکیٹ کہتے ہیں اسی جامع کلاتھ مارکیٹ کے عقب میں آپ کو آرام باغ ملے گا، اور اگر آپ ٹاور سے صدر کی جانب آ رہے ہیں تو برنس روڈ سے پہلے آرام باغ نظر آئے گا۔
اس جگہ کا اصل نام "رام باغ” تھا ، یہاں پر ہندو ابادی کے متوسط طبقے کے لوگ زیادہ آباد تھے اور سکھوں کی تعداد بھی رہائش پذیر تھی اور مسلمان، پارسیوں کی تعداد بھی بہت تھی۔ ہندوؤں کی کتاب رامائن کے مطابق رام، سیتا اور لکشمن جب ہنگلاج (بلوچستان) جا رہے تھے تو ایک رات انہوں یہاں قیام کیا تھا، جہاں ایک چبوترا تھا۔ اس چبوترے کو ہندوؤں نے مقدس جانا۔ پورے ہندوستان سے لوگ اس کی یاترا کرنے آتے تھے۔ یہ وسیع وعریض باغ ایک ہندو سیٹھ دیوان جیٹھا نند نے قائم کیا تھا اور اسے شری رام کے مسکن کی نسبت "رام باغ” کا نام دیا گیا تھا۔ یہاں ہندوؤں کی آبادی کی بڑی وجہ قریب ہی ایم جناح روڈ پر شری سوامی نارائن مندر کی موجودگی ہے۔
اس وقت، جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو مجھے سکھوں کے گوردوارے کا بھی خیال آیا کہ جو وہیں موجود ہے اور تاریخ کے ان پنوں کو بھی پڑھنا پڑا جب قیام پاکستان کے ٹھیک چھ ماہ بعد اس گوردوارے کو آگ لگائی گئی اور کراچی میں مذہبی فسادات ہوئے۔ ان فسادات میں سب سے زیادہ یہی علاقہ مثاثر ہوا تھا۔ گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فوراً سیکرٹری دفاع اسکندر مرزا کو طلب کیا اور 48 گھنٹوں میں یہ فسادات رکوانے کا حکم دیا۔ ساتھ ہی تاکید کی کہ اگر ایسا نہیں ہوا تو آپ کی جگہ کوئی اور سیکرٹری ہوگا۔ اسکندر مرزا نے وہی جملے واپس آ کر کراچی کے کمانڈر انچیف جنرل اکبر خان سے کہے اور اڑتالیس کی بجائے 46 گھنٹے دیئے۔ خیر بات بہت آگے نکل گئی یہ ایک الگ کہانی ہے ہم صرف رام باغ پر بات کرتے ہیں۔
جب فسادات تھمے تو ہندو اور سکھ برادری ہندوستان کی طرف نقل مکانی کرگئی اور یہ رام باغ ویران ہوگیا، کیونکہ اب اس کی رکھ والی کرنے والا کوئی نہیں رہا تھا۔ اس باغ میں قیام پاکستان کا جشن بھی منایا گیا تھا۔ پھر یہاں ایک جلسے کا انعقاد کیا گیا۔ اس جلسے سے مولانا عبدالحامد بدایونی نے خطاب کیا۔ اس جلسے میں ہی اس کو آرام باغ کا نام دیا گیا۔ اب یہ رام باغ نئے نام سے آرام باغ مشہور ہو گیا، اس سے ملحق سڑک میونسپل کتابوں میں آج بھی "آر بی روڈ” کے نام سے موجود ہے۔
اسی جلسے میں پہلی بار نماز ادا کی گئی اور اسے مسجد کا درجہ دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد 20 جون 1953 میں سردار عبد الرب نشتر کے ہاتھوں اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور یوں یہ آرام باغ مسجد کہلائی۔ مسجد سے ملحق باغ میں آپ کو کبوتروں کے غول نظر آئیں گے جن کے دانوں کا انتظام پہلے ہندو کرتے تھے اب مسلمان کرتے ہیں۔ اسی باغ کے اطراف اب آرام باغ فرنیچر مارکیٹ قائم ہے۔ سنا ہے اس باغ میں ایک نشان گھاٹ بھی ہوا کرتا تھا جہاں ارتھیوں کو آگ لگائی جاتی تھی۔
1857 کی جنگ آزادی میں اس رام باغ نے کئی مناظر دیکھے جب انگریزوں نے آزادی کے متوالوں پر بے انتہا ظلم ڈھائے تھے اور کئی سرفروشوں کو اسی باغ میں ان کے جسموں سے توپ کے گولے باندھ کر اڑایا گیا تھا۔ انگریزوں کے دور میں یہ علاقہ کنٹونمنٹ میں آتا تھا۔ آرام باغ کا علاقہ نا جانے کتنی کہانیوں کے پس منظر سے واقفیت رکھتا ہے، یہ تو رب جانتا ہے مگر یہی علاقہ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور پارسیوں کیلئے امن کی بستی تھی۔ یہاں تمام مذاہب کے لوگ امن اور شانتی سے اپنے اپنے مذہبی تہوار بنا کسی خوف کے منایا کرتے تھے۔ مسلمان محرم الحرام میں جلوس اور مجالس منعقد کرتے تھے، ہندو رام لیلا کی داستانیں ڈراموں کی صورت پیش کرتے تھے، سکھ کرپان لے کر ست شری اکال کے نعرے لگاتے تھے، عیسائی اور پارسی اپنے عقائد کے مطابق اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے تھے۔ اب اس باغ کے اطراف فرنیچر مارکیٹ، جوسر، پنکھے، واشنگ مشین کے کاریگر اور دیگر اشیاء مثلاً عورتوں کے کپڑوں کی رنگ سازی اور فوم وغیرہ کا کاروبار ہوتا ہے۔