تعلیم کے بڑھتے ہوئے اخراجات
تحریر: ماہم
خودی کو کر بلند اتنا کے ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سےخود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ہمارے ملک کا نظامِ تعلیم بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے اس میں ناصرف کافی حد تک بہتری لانے کی ضرورت ہے بلکے اسی تعلیم کو سستا کرنے کی اشد ضرورت ہے ایک تو تعلیمی نظام میں بہتری نہیں اور پھر اسکولز فیسیں۔
ایک انسان اگر اپنی نوکری کر کے رات کو اپنی تعلیم مکمل کرے تو وہ بھی آسان نہیں نوکریوں کی تنخواہیں بھی اتنی نہیں جسے انسان گھر ، فیملی ، اخراجات اور اپنی تعلیم پوری کرسکے۔
اسی مہنگی تعلیم کو لے کر اگر بات کی جائے تو باہر کے تمام ممالک میں تعلیم ناصرف فری ہے بلکے نظامِ تعلیم بھی بہترین ہے۔ ہمارے ملک میں پرائیویٹ اسکولز ، ہو یا پرائیویٹ کالجز اور پرائیویٹ یونیورسٹیز ہر طرف سے فیسیں لی جاتی اور تعلیمی معاملے میں کوئی بہتری و غور و فکر نہیں۔
نظامِ تعلیم میں ہمارے معاشرے کا کردار منفی ہے جو کہ ہمارے آنے والی نسلوں کی تباہی کا باعث ہے تعلیم حاصل کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور اگر وہی اس حق سے محروم ہو خواہ وجہ چاہے مہنگی تعلیم کی وہ فیسیں ہوں جو شہری کی آمدنی سے زیادہ ہوں تو ایسے میں وہ کیسے اپنے تعلیمی شوق کو پورا کرسکے گا۔ آج بھی اس ملک میں کئی لوگ ایسے ہیں جو تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن افسوس ان کے اس خواب کو پورا کرنے کے لئے ان کے پاس پیسے نہیں ہیں ۔
ساؤتھ افریقہ میں ایک یونیورسٹی کے دروازے پر لکھے فکر انگیز جملے :
"کسی قوم کو تباہ کرنے کے لئے ایٹم بم اور دور تک مار کرنے والے میزایلز کی ضرورت نہیں ، بلکہ اس کے نظامِ تعلیم کا معیار گرادو اور طلبہ و طالبات کو امتحان میں نقل لگانے کی اجازت دے دو تو وہ قوم خود تباہ ہو جائے گی۔”