مسائل اور تماشائی عوام

تحریر: ارم مجید

   قرآن میں صاف اور واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ:  ” جیسی قوم ویسے حکمران "پاکستانی قوم کی خاموشی توڑنے کے لئے یہ میرا کوئی پہلا اقدام نہیں ایک پاکستانی اور صحافی ہونے کے ناطے میں اس  بات کو بار بار کہتی ہوں کہ :   خاموش مزاجی تمہیں جینے نہیں دے گی دنیا میں جینا ہے تو کہرام مچا دو ۔۔۔مگر اس قوم کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو لاشیں اٹھاتی ہے  آواز نہیں ،مہنگائی کا طوفان برداشت کرتی ہے، بیروزگاری کی وجہ سے خودکشی کرتی ہے،اپنی معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی ہونے کے بعد ان کی لاشوں کو دفنا کر آجاتی ہے  اور پھر دوسری بچی کے ساتھ زیادتی ہونے تک انتظار کرتی ہے ۔مہنگائی ہونے پر چیزوں کا ذخیرہ مہنگے  داموں کرنے پر  تو راضی ہو جاتی ہے مگر اس کا بائیکاٹ کرنا گوارا نہیں کرتی ۔یہ قوم بنیادی حقوق سے زیادہ انٹرٹینمنٹ اور فضول چیزوں کو وقت دینا پسند کرتی ہے پھر چائے وہ  فحاشی  ہو، بے حیائی پھیلانے والے ڈرامے ہو، پورن ویڈیوز ہو  یا  سیاسی وڈیروں  اور  لٹیروں کے لیے آپس میں لڑنا جھگڑنا اور اپنے آپس کے تعلقات کو خراب کرنا ۔اس قوم نے  مہنگائی کا رونا تو رویا ہے مگر اس کے لئے انہیں کیا اقدامات کرنے ہیں ،کس طرح اپنے حقوق حاصل کرنے ہیں انہیں ذرا برابر بھی علم نہیں۔

اگر کوئی شعور اور آگاہی دیتا بھی ہے تو اسے یہ قوم  پاگل، بیوقوف اور اپنا دشمن گردانتی  ہے ۔اس قوم کا مسلہ مہنگائی نہیں۔ اگر مہنگائی ہوتا تو پاکستان  خاص کر کراچی کے ہوٹل ،ڈھابے ،شاپنگ مال ،دودھ کی دکانیں ،خشک میوے کے ٹھیلے ،ونٹر میلے عوام کے ہجوم سے لبریز نہیں ہوتے ۔اس قوم کو جس طرح جو بھی نہیں چاہیے نچاتا  ہے پھر چاہے وہ حکمران ہو مخالف اپوزیشن ڈکٹیٹرشپ یا پھر اشرفیہ ۔اگر عوام کو اپنے حقوق چاہیے تو سب سے پہلا کام ان سیاسی پارٹیز  کی حمایت اور ان کی وجہ سے اپنے تعلقات کو خراب کرنا چھوڑنا ہوگا ،جو لوگ پاکستان سے مخلص ہیں  ان کے ساتھ مل کر ان کا ساتھ دینا ہوگا چاہے پھر وہ کوئی بھی ہو ۔کیونکہ حضرت علی نے فرمایا :یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے۔۔سب سے اہم اور ضروری کام عوام کو مخلص ہونا ہوگا ،سچا پاکستانی ہونے کے ناطے ہر اس چیز کو، ہر اس انسان کو غلط کہنا ہوگا جو پاکستان اور پاکستانی عوام کے بجائے اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔اور عوام کو گندی سیاست، محب الوطنی اور دین کے نام پر استعمال کر رہے ہیں کیونکہ جب تک ہم شعور اور آگاہی سے کام نہیں لیں گے ہم انیس سو سینتالیس 1947 والی قوم سے بھی بدتر قوم بن جائیں گے۔پہاڑوں سے بہنے والے چشمے اور درختوں سے نکلنے والے پانی کی حقیقت صرف رب  جانتا ہے۔

مگر ساتھ ہی یہ کہوں گی کہ تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے اب بھی وقت ہے سمجھ جاؤ پاکستانیوں اور رب کی دی ہوئی نعمت پاکستان کے لیے اور اپنے حق کے لیے بولو، خاموشی کے بندھن کو توڑو ۔عمران خان کی حکومت تبدیلی کا نعرہ لے کر آئیں اسی  دوران میں نے ایک نظم لکھی تو عوام نے مجھے بے وقوف، نہ سمجھ اور تبدیلی کے خلاف بولنے والا  ایجنٹ کہا ۔مگر آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس نظم کے ذریعے آپ لوگوں کو بہتر طور پر سمجھ آ جائے گا اس پر نظر ثانی ضرور کیجئے گا ۔دوراندیشی ہر بار غلط نہیں ہوتی اس کی مثال آپ کے سامنے یہ نظر ہے ۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔