گداگری: کراچی کی رگوں میں دوڑتا کینسر

 محمد اُسامہ

رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہوتے ہی پورے ملک سے گداگروں کا جم غفیر روشنیوں کے شہر کراچی کا رخ کرلیتا ہے۔ اور بھکاری یا گداگر کیوں نہ اس شہرکا رخ کریں۔ یہ شہر پورے ملک کا معاشی حب ہے، پھر گداگر حضرات کیوں نہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئیں۔
۔ کراچی کی تمام سڑکوں، چوراہوں، سگنلز، مارکیٹوں، دکانوں ، ہوٹلوں کے باہر ان کا ٹولہ ضرور موجود ہوتا ہے۔

گزشتہ روز ایک واقعہ رونما ہوا۔ میں ایک مشہور ہوٹل کے باہر کھانا لیے لائن میں لگا تھا، لائن کافی طویل تھی۔ اسی دوران وہاں ایک بھکاری صاحب تشریف لائے، اس گداگر نے آتے ہی اپنی گداگری کے جوہر دکھانا شروع کردیے۔
لائن میں موجود ایک صاحب کو اس پر ترس آیا تو انہوں ہوٹل والے کو کہا کہ اس کو میری جانب سے کھانا دے دو میں پیسے دی دیتا ہوں۔ مجھ سمیت تمام لوگوں نے ان صاحب کو تعریفی نظروں سے دیکھا ۔ ہوٹل والے نے انہیں باور کرایا کہ صاحب آپ اس کی باتوں میں نہ آئیں یہ اس کا روز کا بلکہ ہر دس منٹ کے بعد کا کام ہے۔ لیکن خیر ! ہوٹل والے اپنی تئیں کوشش کرلی کہ شاید وہ صاحب منع کردیں۔
لائن آہستہ آہستہ کھسکتی رہی اور ان صاحب کا نمبر آگیا، انہوں نے اپنے اور اس گداگر کو دیے گئے کھانے کی رقم ادا کی اور روانہ ہو گئے۔ ان صاحب کے بعد میرا نمبر بھی آگیا میں نے اس گداگر کو دیکھا تو وہ پلیٹ میں مگن تھا۔ مجھے بھی تھوڑا ترس آیا کہ چلو بھوکا تھا، اب اس کا پیٹ بھر گیا۔ لیکن چند لمحوں بعد اس نے ہاتھ جھاڑے اور وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔
میری نظر اس کی پلیٹ کی جانب گئی، تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، کیوں اس جاہل شخص نے پلیٹ میں صرف بوٹی(چکن) کے ساتھ ہی انصاف کیا۔ پلیٹ میں موجود باقی رزق کی کس انداز میں بے حرمتی کی گئی، وہ بیان کرنا مشکل۔ اسی دوران ہوٹل والا لائن میں کھڑے ایک شخص سے مخاطب ہوا کہ یہ ابھی چند دیر قبل بھی اسی طرح کر کے گیا۔ ہم انہیں ہوٹل سے دور رکھنے کی بے حد کوشش کرتے ہیں مگر یہ سننے کا نام نہیں لیتے اور اسی طرح رزق کی بے حرمتی کرتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق شہر قائد میں اس وقت ڈیڑھ لاکھ سے زائد بھکاری اور گداگر موجود ہیں۔ جو مختلف طریقوں سے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ اگر ایک گداگر روزانہ صرف ایک ہزار روپے کمائے، تو دن بھر میں 15 کروڑ روپے عوام کی جیبوں سے یہ لوٹ لیتے ہیں۔ اور اگر پورے مہینے کی بات کریں، تو یہ گداگر چار ارب پچاس کروڑ روپے کما لیں گے۔
لہذا میری اپنے تمام قارئین سے گزارش ہے کہ ایسے ڈھونگی لوگوں کو پیسے دینے سے گزیر کریں اور ایسے لوگوں کی تلاش کریں، جو واقعی مستحق ہوں۔ جو آپ کے دیے ہوئے پیسے کو قبول کرنے کے بعد آپ کے حق میں دعا کر سکیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔