کیا میں آزاد ہوں

کشف ناصر

 اللّٰہ نے بنی نوعِ انسانی کو آزاد پیدا کیا ہے اور یہ انسان کا فطری حق ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اپنی زندگی بسر کرے ۔ لیکن آزادی کا دائرۂ کار مشروط ہے ۔ چاہے مرد ہو یا عورت آزادی پر سب کا برابر حق ہے ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں ہم آباد ہیں عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ مظلوم ہیں لیکن وہیں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ خواتین کو ہر میدان میں سہولت بھی دی جاتی ہے۔ آج کل خواتین کے حقوق کیلئے بہت پر جوش اور پرزور انداز میں آواز اٹھائی جارہی ہے اور ان کی آزادی کے حق میں نعرے لگائے جارہے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک عورت ہونے کے ناطے کیا میں آزاد ہوں؟ کیا یہ جو نعرے لگائے جارہے ہیں یہ میرے مفاد میں ہیں یا نہیں؟
 عورتوں کی آزادی کیلئے گزشتہ چند برسوں سے پاکستان میں عورت مارچ کا انعقاد کیا جارہا ہے جس کا بنیادی مقصد عورتوں کو ان کے بنیادی حقوق دلوانا تھا یہ جدوجہد اس نظام کے خلاف شروع کی گئی تھی جہاں خواتین کو آج کے دور میں بھی زندہ درگور کردیا جاتا ہے جہاں خواتین کو ان کے بنیادی حقوق تک سے بھی محروم رکھا جاتا ہے اور مردوں کو خواتین سے کمتر اور حقیر سمجھا جاتا ہے۔
 لیکن اگر میں حالیہ اور گزشتہ سال کی عورت مارچ کی طرف توجہ دلاؤں تو ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ عورت مارچ کا جو بنیادی مقصد تھا وہ کہیں فوت ہوگیا ہے اور اس کی جگہ بے حیائی نے لے لی ہے اس مارچ میں شامل خواتین جو پلے کارڈز اٹھائے پھرتی ہیں  مغربی معاشرے کی طرز پر اپنے اخلاق، اپنے اقدار اور اپنے دین سے آزادی مانگتی نظر آتی ہیں ۔ اور کہتی جاتی ہیں "میرا جسم میری مرضی”
 مختصراً یہ کہ آج کی دنیا میں عورتوں کی آزادی کی راہیں ہموار ہوئی ہیں اور آج کی عورت معاشرے میں ایک اہم مقام رکھتی ہے اور آزادی سے زندگی بسر کر رہی ہے
 خدارا اپنی اقدار  کو سمجھیں ۔اپنی حدود کو سمجھیں ۔ آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بے ہودہ مطالبات کئے جائیں بلکہ اس عورت مارچ کے بنیادی مقصد کو مد نظر رکھیں اور خواتین کے بنیادی حقوق کیلئے آواز اٹھائیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔