اسامہ کی موت پر صدر زرداری نے خوشی کا اظہار کیا، اوباما
واشنگٹن: سابق امریکی صدر بارک اوباما اپنی نئی کتاب ’اے پرامسڈ لینڈ‘ میں رقم طراز ہیں کہ میں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد سے مشکل فون کال کی توقع پاکستان سے کررہا تھا، لیکن ہوا بالکل اس کے برعکس۔
اوباما لکھتے ہیں کہ میرا خیال تھا سب سے مشکل فون کال پاکستانی صدر آصف زرداری کی ہوگی کیونکہ اس واقعے کے بعد ان پر پورے ملک سے دباؤ ہوگا کہ پاکستان کی سالمیت کی تضحیک ہوئی ہے۔
اوباما مزید لکھتے ہیں، لیکن جب میں نے ان سے رابطہ کیا تو ایسا بالکل نہیں تھا، آصف زرداری کا کہنا تھا کہ جو بھی ردعمل ہو، یہ بہت خوشی کی خبر ہے۔
اوباما نے لکھا کہ صدر آصف زرداری اس فون کال پر واضح طور پر جذباتی تھے اور انہوں نے اپنی اہلیہ بے نظیر بھٹو کا بھی ذکر کیا جنہیں القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں نے ہلاک کیا تھا۔
اس کتاب کے دیباچے میں سابق امریکی صدر اوباما نے لکھا کہ جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے دور صدارت کی داستان تحریر کریں گے تو ان کا خیال تھا کہ وہ 500 صفحات پر مبنی کتاب ہوگی جسے وہ سال بھر میں مکمل کرلیں گے لیکن مزید تین سال اور 200 مزید صفحات کے باوجود ان کی کہانی کا صرف پہلا حصہ ہی مکمل ہوا ہے۔
یہ کتاب اوباما کے بچپن سے لے کر ان کے پہلے دور صدارت کے سب سے اہم واقعے مئی 2011 میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی ہلاکت تک کے واقعات تک محدود ہے۔
اوباما اپنی آپ بیتی کا دوسرا والیوم لکھ رہے ہیں، لیکن یہ واضح نہیں کہ اس کی اشاعت کب ہوگی۔
سات جلدوں اور 27 ابواب پر مشتمل کتاب کا آخری باب اسامہ بن لادن پر پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں کیے گئے حملے اور اس کی منصوبہ بندی کے بارے میں ہے۔
اوباما نے اپنی کتاب میں لکھا کہ جب انہوں نے عہدہ صدارت سنبھالا تو اس وقت امریکی حکام نے اسامہ بن لادن کی کھوج لگانے کا سلسلہ قریباً چھوڑ دیا تھا لیکن انہوں نے اس کو اپنی سب سے اوّلین ترجیح بنایا اور مئی 2009 میں ہی اپنے قریبی مشیروں کو کہہ دیا تھا کہ میں اسامہ بن لادن کی کھوج لگانا چاہتا ہوں، لہٰذا اس کے لیے منصوبہ تشکیل دیا جائے اور ہر 30 دن بعد عمل درآمد رپورٹ سے آگاہ کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کو انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا اور انتظامیہ کے چند لوگوں کے سوا کسی کو اس کا علم نہ تھا، پاکستانی حکام کو بھی اس منصوبے کی بھنک نہ پڑنے دی گئی۔
سابق امریکی صدر نے بتایا کہ ان کے قریبی ساتھیوں میں سے اکثریت نیوی سیلز کو بھیجنے پر راضی تھی البتہ امریکا کے نومنتخب صدر جوبائیڈن نے صبر کرنے کا مشورہ دیا اور نیوی سیلز کو پاکستان بھیجنے کی مخالفت کی۔
اوباما لکھتے ہیں کہ اس وقت کے سیکریٹری دفاع رابرٹ گیٹس بھی اس حملے کے خلاف تھے اور اسی بات کو جواز بناتے ہوئے جوبائیڈن نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ مشن کی ناکامی کی صورت میں پیدا ہونے والی صورت حال انتہائی مشکل ہوجائے گی۔
ان کے بقول جوبائیڈن کا مؤقف تھا کہ آپریشن کی منظوری سے قبل ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کی تصدیق کرلی جائے اور پھر 2011 کو یکم اور 2 مئی کی درمیانی شب کو کیے گئے حملے میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کردیا گیا۔
اوباما نے اپنی کتاب میں لکھا کہ جب نیوی سیلز نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی تصدیق کی تو مجھے کچھ حوصلہ ملا اور میں نے اس کی اطلاع سابق امریکی صدور بل کلنٹن اور جارج ڈبلیو بش کو دی اور اس کے بعد چند اتحادی ممالک سے رابطہ کیا۔