گم ہوتا کراچی: کراچی کی ترقی اور پارسی کمیونٹی
کراچی کی ترقی میں جہاں انگریز بہادر کا بڑا کردار رہا ہے وہیں پارسی کمیونٹی بھی کراچی کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی رہی ہے۔ پارسی کمیونٹی کا شمار کراچی کے قدیم باشندوں میں ہوتا ہے۔ یہ کمیونٹی زرتشت کی پیروکار ہے۔ پارسی کمیونٹی کے افراد دنیا کی مختلف زبانوں پر عبور رکھتے ہیں اور دنیا بھر کی تازہ ترین سیاسی و اقتصادی صورت حال سے باخبر رہتے ہیں۔ اس کمیونٹی کے افراد نہ صرف عالمی منڈی میں قیمتوں کے اتار چڑھاو کی مکمل معلومات رکھتے ہیں، بلکہ منافع بخش تجارت کی غرض سے دنیا بھر کا سفر بھی کرتے ہیں۔
مسلمانوں کے ہاتھوں ایران کی فتح کے بعد ایران سے آتش پرست ساسانی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد کچھ پارسی مسلمان ہوگئے اور کچھ جزیہ دے کر اسلامی ریاست میں رہنے لگے۔ باقی آتش پرست آٹھویں سے دسویں صدی عیسوی کے دوران ایران سے ہجرت کرکے ہندوستان آگئے۔ ہندوستان پر انگریز کے قبضے کے بعد برطانوی فوج سے منسلک ہوکر کراچی میں آکر آباد ہوگئے۔ پارسی کمیونٹی نے اپنی قابلیت، محنت اور ذہانت کی بدولت مقامی افراد اورفوجی حکام میں اپنا اثر رسوخ جلد قائم کرلیے۔ کراچی کی فضا تجارت کے لئے ساز گار تھی، لہٰذا پارسی کمیونٹی کے افراد بمبئی اور سورت کے علاقوں سے ہجرت کرکے کراچی چلے آئے۔ ساحلی شہر کراچی پہنچنے والا پہلا پارسی ایک ٹھیکے دار تھا، جس کا نام مانک جی تھا۔ مانک کی انگریزوں کے ساتھ بمبئی سے کراچی پہنچا تھا۔ کراچی آمد کے بعد مانک جی کو قتل کردیا گیا۔
روشن ذہنی اور وسیع القلبی کی وجہ سے پارسی کمیونٹی کے افراد مغربی تہذیب کے دلدادہ ہیں، تاہم انہوں نے اپنی اقدار نہیں چھوڑی ہیں اور اپنے قدیم طرز زندگی سے اپنا تعلق جوڑے ہوئے ہیں اور اپنی ہزاروں برس قدیم رسومات کو اپنا ئے ہوئے ہیں۔
کراچی میں آ بسنے والے زیادہ تر پارسی افراد گجراتی زبان بولتے ہیں تاہم ان کی زبان عام گجراتی زبان سے قدرے مختلف ہے۔ جو پارسی افراد ایران سے کراچی منتقل ہوئے وہ فارسی زبان سے بھی آشنا ہیں۔ کراچی پہنچنے والے پارسی افراد نے برطانوی عہد میں سستے داموں زمیں حاصل کرکے صدر اور سول لائن میں وسیع علاقے آباد کیے۔ یہاں پہنچنے والے بعض افراد نے سرکاری و نجی اداروں کے ساتھ ساتھ بینکوں اور محکہ ریلوے میں ملازمتیں حاصل کرلیں۔
پارسی کمیونٹی کے ایک سرکردہ سرمایہ دار سہراب کٹرک نے 1920 میں کراچی میں 96,000 مربع گز زمین خریدلی۔ یہ زمین سولجر بازار کے قریب واقع تھی۔ اس زمین کی خریداری کا مقصد پارسی کمیونٹی کو ایک جگہ آباد کرنا تھا۔ یہ علاقہ ایم کے جناح روڈ سے متصل ہے۔ اب ان پرانے بنگلوں کو گرا کر کثیرالمنزلہ عمارات تعمیر کی جاچکی ہیں، تاہم بعض بڑے بنگلے اب ویران پڑے ہیں۔
کراچی شہر میں اس وقت پارسی کمیونٹی کی نو کالونیاں قائم ہیں۔ 1857ء کے بعد یہاں پہنچنے والے پارسیوں کی تعداد 1890 سے قبل تک صرف ایک ہزار تھی۔ ان میں سے زیادہ تر دولت مند تھے اور شہر کی ممتاز شخصیات میں ان کا شمار کیا جاتا تھا۔
پارسی کمیونٹی کے سو فیصد افراد تعلیم یافتہ ہیں۔ کراچی پہنچنے والے پارسیوں میں تین افراد کو اپنی کمیونٹی کا ممتاز رہنما ہونے کا شرف حاصل ہے۔ پہلی شخصیت تھے ڈاکٹر دستور دھالا، جو پارسی کمیونٹی کے مفتی یا ان کی انجمن کے سربراہ تھے۔ دوسری شخصیت جمشید مہتہ کی تھی، جنہیں کراچی کا معمار اعظم کہا جاتا ہے، جبکہ تیسری شخصیت کا نام ہے خان بہادر شہریار کنڑکٹر، جو سندھ کے مایہ ناز ماہر تعلیم تھے۔ پارسی کمیونٹی کے دیگر نامور افراد میں نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا کا نام انتہائی اہمیت کا حامل ہے جنہوں نے این ای ڈی یونیورسٹی قائم کی۔ کاکا دھنجی شاہ کوتوال قائدِ اعظم کی مادرِ علمی سندھ مدرستہ الااسلام کے وائس پرنسپل رہے ہیں۔ خان بہادر ارد شیر ماما بڑی سماجی شخصیت تھے۔ سر جہانگیر کوٹھاری کا نام بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جنہوں نے کلفٹن کا کوٹھاڑی پریڈ تعمیر کرایا تھا۔ جہانگیر راجکوٹ والا، بہرام جہانگیر کے نام سے صدر میں واقع جہانگیر پارک موسوم ہے۔
پارسی کمیونٹی کے دیگر انتہائی سرکردہ افراد میں سرفقیر جی کاوس جی ، آر کے سدھوا، سر خورشید ہومی کٹرک، ڈاکٹر انکل سریا، سہراب کٹرک، ڈاکٹر منوچہر اسپنسر (بانی اسپنسر آئی اسپتال لیاری)، بہرام ڈی آواری، جمی انجینئر، جمشید مارکر (ممتاز کمنٹیٹر اور سفارت کار)، ارد شیر کاوس جی، جسٹس دراب پٹیل، سائرس مینوالا (مالک ہوٹل میٹرو پول) اور ایمی مینوالا (نامور رقاصہ) کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ 1970ء کی دہائی تک کراچی میں 5000 سے زائد پارسی آباد تھے، تاہم اب کراچی میں ان کی تعداد چند سو تک محدود ہوگئی ہے۔
کراچی میں پارسی کمیونٹی کے دو آتش کدے جنھیں اگیاریاں بھی کہا جاتا ہے۔ ان آتش کدوں میں صندل کی لکڑی جلائی جاتی ہے۔ کراچی میں پارسیوں کی پہلی عبادت گاہ صدر میں قائم کی گئی، جس کا پورا نام ’ایچ جے بہرانہ پارسی دار مہر ہے۔ یہ عبادت گاہ کا 1845 میں قائم کی گئی تھی۔ اس عمارت میں صرف ممبران کو آنے کی اجازت ہے۔ اس عمارت میں آگ کبھی نہیں بجھتی۔ یہاں پارسی افراد عبادت کرتے ہیں۔ دوسرا آتش کدہ پاکستان چوک پر ہے۔ یہ آتش کدہ 1875 میں مہرو وانجی واڈیا نے ڈی جے کالج سے متصل تعمیر کروایا تھا۔ 1923سے قبل پاکستان چوک کے اطراف پارسی کمیونٹی بڑی تعداد میں آباد تھے۔
پارسی مذہب کے مطابق پانی، ہوا، سورج اور آگ اتنے پاک اور مقدس ہیں کہ ان کا تقدس بحال رکھنے کے لیے وہ سب کچھ کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ پارسی کمیونٹی کا عقیدہ ہے کہ مُردوں کو دفنانے یا جلانے سے یہ عناصر ناپاک ہوسکتے ہیں اس لیے وہ اپنے مُردوں کو دفناتے یا جلاتے نہیں، بلکہ ان کی لاشوں کو اونچے مینار یا پہاڑوں پر گِدھوں کے آگے ڈال دیتے ہیں۔ ان مینار کو ٹاور آف سائلنس یعنی مینارِ خموشاں کہا جاتا ہے۔ کراچی آمد کے ابتدائی زمانے میں پارسی افراد اپنے مُردوں کو ایم کے جناح روڈ پر واقع ریڈیو پاکستان کے عقبی علاقے میں رتن تالاب کے کنارے رکھ دیا کرتے تھے جہاں ان لاشوں کو گوشت خور جانور اور گدھ کھا لیا کرتے تھے۔ اس جگہ پر آبادی قائم ہونے کے بعد پارسی کمیونٹی نے 1877ء میں کلفٹن میں اپنے باقاعدہ ایک دخمہ یعنی ٹاور آف سائلنس قائم کیا۔ دوسرا دخمہ 1915ء میں چینسر گوٹھ کے نزدیک ڈیفنس پارسی کالونی میں تعمیر کیا گیا۔ اب کراچی کی آبادی بڑھ جانے کے باعث گدھوں کی نسل معدوم ہوتی جارہی ہے، اس وجہ سے پارسی کمیونٹی نے اپنی مذہبی رسومات بھی تبدیل کردی ہیں۔ اب پارسی کمیونٹی کے افراد نے اپنے مردوں کو بجلی کے ہیٹر سے جلانا یا انھیں دفن کرنا بھی شروع کردیا ہے۔
کراچی کی ترقی میں پارسی کمیونٹی نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ کراچی شہر میں سینما کی ابتدا بھی پارسیوں نے کی تھی۔ پارسی کمیونٹی نے سب سے پہلے کلب روڈ پر پیلس تھیٹر قائم کیا تھا۔ اس تھیٹر میں انگریزی میں خاموش اور پھر بولتی فلیمیں دکھائی جاتی تھیں۔ 1924میں ایم اے جناح روڈ پر، جسے اس وقت بندر روڈ کہا جاتا تھا، امریکن سینما تھا قائم تھا، جو پارسیوں کی معروف الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کی ملکیت تھا۔ اس جگہ پر بعد میں لائٹ ہاؤس سینما قائم کیا گیا۔
قیام پاکستان سے قبل کراچی کی زیادہ تر شراب کی دکانیں پارسی افراد کی ملکیت تھیں۔ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ کراچی میں کرکٹ کے فروغ میں بھی پارسی کمیونٹی نے اہم کردار ادا کیا۔ یہاں سب سے پہلا کرکٹ کلب 1847 میں قائم ہوا۔ یہ کلب بھی پارسی کمیونٹی نے قائم کیا تھا۔ اس کرکٹ کلب کا نام اورینٹل کرکٹ کلب تھا۔ اسے برصفیر کا پہلا کرکٹ کلب بھی کہا جاتا ہے۔ پارسی کمیونٹی کی پہلی کرکٹ ٹیم 1886ء میں انگلستان گئی تھی۔ اس ٹیم میں دادا ڈنشا، بی ڈی دستور اور برجری بالا جیسے بہترین کرکٹ کے کھلاڑی شامل تھے۔ دیگر کھلاڑیوں میں ایم جے موبڈ، ڈی جے موبڈ، کاوس مینوالا، ہوشنگ مینوالا، ایس آر ماولوالا، کابرا جی، ایڈی بھاچو، پلسوٹیا، جے ڈی مودی، مرزبان ڈنشا، روسی ڈنشا، کے ایرانی، رانجی اور بے ڈی جیکسی شامل تھے۔
پارسی کھلاڑیوں نے 1902 تک یورپی ٹیموں کے ساتھ کرکٹ کے بے شمار میچ کھیلے۔ 1916 میں کراچی میں مقامی کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا گیا، جس میں کراچی کی پارسی کرکٹ ٹیم نے بھی حصہ لیا تھا۔ اس ٹورنامنٹ کا مقصد پہلی عالمی جنگ کے متاثرین کی امداد کے لیے چندہ اکھٹا کرنا تھا۔
کراچی میں آباد پارسی کمیونٹی نے غریب افراد کے لئے مکانات کی تعمیر، شفاخانوں، اسکولوں، ثقافتی مراکز سمیت دیگر فلاحی منصوبے شروع کیے۔ پارسی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے جمشید نصروان جی مہتہ نے بطور میئر کراچی شہر کی خوبصورتی اور صفائی ستھرائی پر خصوصی توجہ دی۔ ان کی بہترین کوششون سے کراچی پورے برصغیر میں صفائی اور خوبصورتی کی علامت بن گیا تھا۔
1980ء کی دہائی میں مسٹر سدھوا پارسی انجمن کے صدر تھے، جن کی رہائش ڈیفنس کے علاقے میں واقع پارسی کالونی میں تھی۔ یہ رہائشی کالونی بہترین پلاننگ کے تحت بنائی گئی تھی جہاں صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ یہاں لگائے گئے خوبصورت سایہ دار درختوں نے اس کالونی کی آب و ہوا کو پاکیزہ بنارکھا ہے۔