مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ

نازیہ علی

قلم جو میرا نچوڑو گے
سیاہی نہیں لہو ٹپکے گا
پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وجہ سے موجودہ صورتحال دیکھ کر جب بھی قلم اٹھایا وہ سرخ ہو گیا اور میری آنکھیں وہ ظلم سوچ کر نم ہو گئیں جو مظلوموں اور معصوموں پر اس دنیا میں جینے والے با اختیار اور طاقتور لوگوں نے ڈھائے اور نہ جانے کتنی ماؤں کی گودوں کو سرخ کیا۔ وہ تمام مظالم سوچ کر میرے قلم سے مسلسل لہو ٹپکتا ہے اور وہ لہو چیخ چیخ کر پکارتا ہے، جسکی وجہ سے میں تلخ حقائق لکھنے پر مجبور ہوجاتی ہوں۔

کوئی ظالم و جابر، ظلم اور گناہ کرنے سے پہلے سوچے کہ اللہ کی پکڑ سے کوئی نہیں بچ سکتا بے شک وہ ہر شے پر قادر ہے اور جب اللہ کے بندے اپنی فریاد آسمان پر جاکر سناتے ہیں تو اللہ ظالموں کا کیا حال کرتا ہے اور مظالم دیکھ کر چپ رہنے والے بھی شریک جرم کہلاتے ہیں۔ جو ظالموں کے خوف سے خاموش رہ کر ظلم کا ساتھ دیتے ہیں

۔یہ بات صرف کشمیر،فلسطین یا شام کے مظلوموں کی نہیں ہے ظلم کی یہ داستان طویل ہے، میرے سرخ بھیگے قلم کی بوندوں میں مجھے معصوم زینب کی سسکیاں اور اسکے والدین کی دہائیاں سنائی دیتی ہیں زینب جیسی نہ جانے کتنی معصوم بچیاں اور بچے درندگی کی نظر ہو گئے اور اس درندگی کو کاروبار بنانے والے غیر ملکی ادارے جو سوشل میڈیا اور مختلف جگہ پر پورن ویڈیوز کے کام کو فروغ دینے والے آزاد ہیں جو کہ اس درندگی کے ذریعے اپنا کاروبار بڑھانے کیلئے روز نت نئے طریقے ایجاد کر کے معصوم بچوں پر جنسی تشدد کو نفسیاتی لوگوں کی تسکین بنانے میں ساتھ دیتے ہیں۔

مدارس کے وہ مولوی حضرات جو اپنی درندگی کا نشانہ معصوم بچے اور بچیوں کو بنا کر انکی زندگیاں چھینتے رہے۔مذہب ،قومیت اور فرقوں کے نام پر بم دھماکوں میں معصوموں کو شہید کیے جانے والوں اور تعصبات کا نشانہ بنا کر گھروں سے اغواء کر کے اسیری کی زندگی گزارنے والوں کے گھر والوں سے کبھی کسی نے انکے دل کا حال پوچھا ہے کہ جب کوئی اپنا دور ہوتا ہے تو کیسا لگتا ہے۔قرنطینہ کے خوف سے جب لوگ روتے ہیں تو ان تمام مظلوموں کا احساس ہوتا ہے کہ ان پر کیا گزری ہو گی جو گھر سے بے گھر کر دیئے گئے کراچی کے نا جانے کتنے جوانوں کو انکی ماؤں سے جدا کر دیا گیا ۔

کیا قصور تھا شہید امجد صابری اور شہید علی رضا عابدی جیسے بے قصور جوانوں کا کہ انکا لہو بے رحمی کے ساتھ بہا دیا گیا۔میں کوئی اسلامک اسکالر یا مولوی نہیں جو کسی پر فتوی’ لگاؤں مگر ایک عام انسان ضرور ہوں اور بحیثیت ایک انسان میرے سوالات انسانیت کے علمبرداروں سے ہی زیادہ ہوتے ہیں ہمارا مذہب اسلام جسکا پہلا درس ہی انسانیت ہے کیا ہم نے کبھی اس درس پر عمل کرنے کی کوشش کی؟ یہ سوال میرا پوری امت مسلمہ سے ہے۔کیونکہ جب کورونا وائرس کا آغاز ہوا تو ہم تمام مسلمانوں نے کافروں پر اسکو اللہ کا عذاب قرار دیا حرام چیزیں کھانے کا سبب ٹہرایا مگر پھر خانہ کعبہ ،مدینہ اور مختلف زیارات کے مقامات بھی اسکی لپیٹ میں آگئے اور طواف کعبہ رکنے پر بھی ہم سچے پکے مسلمان یہ نہ سمجھ سکے کہ اللہ کا یہ عذاب ہر انسان کو اسکی اوقات بتانے کیلئے ہے کہ ابھی بھی وقت ہے سمجھ جاؤ کہ اللہ ایک پل میں تمھارے ساتھ کیا کر سکتا یے۔

ڈینگی،ہیٹ اسٹروک،سوائن فلو،برڈ فلو اور اسطرح کی نہ جانے کتنی آفات کا سامنے کرنے والے آج کورونا وائرس کی وجہ سے کس خوف سے گزر رہے ہیں۔سفاکیت کی بات کی جائے تو کشمریوں پر لاک ڈاؤن کر کے کرفیو لگانے والے ہندوستان میں کورونا وائرس کی وجہ سے اب سنگین کرفیو ہے۔جب مظلوم کشمیریوں کی جوان بیٹیوں کی عزتیں پامال کی جاتی تھیں جوان لڑکوں کی آنکھیں نکال لی جاتی تھیں اور بوڑھے والدین کو جنازوں پر تڑپتے کیلئے چھوڑ دیا جاتا تھا اس وقت کیا کبھی کسی نے سوچا تھا مظلوموں کا حساب لینے والا اللہ موجود ہے سعودیہ میں جب ایک ماں کے سامنے ڈرائیور نے اسکے معصوم بچے کو فرقے کے نام پر قتل کر دیا تو کیا کسی نے سوچا تھا کہ اسکا حساب اللہ کیسے لے گا۔شام کا وہ معصوم بچہ جو رو رو کر تڑپتا رہا اور اپنے ساتھ ہوئے مظالم پر کہتا رہا اوپر جا کر اللہ کو سب کچھ بتاؤں گا کیا کسی کو نہیں لگتا کہ اس نے اوپر جا کر سب کچھ بتا دیا۔سندھ کی وہ بیٹیاں جو کبھی کاروکاری کے نام پر اور کبھی درندگی کا نشانہ بن کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں وہ بھی تو آسمان پر جا کر فریاد کرتی ہونگی۔

اللہ نے تو انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا مگر انسان طاقت کے زوم میں انسانیت مٹانے کے گھناؤنے کاروبار کا حصہ بن گیا۔ذرا بلاؤ نہ انکو جو نعرہ لگاتی پھر رہی تھیں میرا جسم میری مرضی۔نکاح کو ختم کر کے زنا اور ہم جنس پرستی کو فروغ دینے والی سوچ کی حامل ،شیطانی قوتوں کا ساتھ دینے والی اور خاندانوں کو توڑ کر عیاشی اور بے باکی کا پیغام دینے والی ان خواتین کو اب کوئی بتائے کہ جسم بھی اللہ کا یے اور مرضی بھی اسی پاک پروردگار کی ہے۔11 مارچ 2020 کو 23 مارچ کی پریڈ کی ریہرسل کے دوران پاک فضائیہ کا طیارہ F.16 گر کر تباہ ہو گیا جس میں پائلٹ ونگ کمانڈر نعمان اکرم شہید ہو گئے شہید کے پاس سیف ایجیکشن کا آپشن موجود تھا لیکن نیچے آبادی کو بچانے کیلئے انہوں نے اپنے ہنستے مسکراتے خاندان کی خوشیوں پر اپنے ہم وطنوں کی زندگیوں کو ترجیح دی اور طیارے کو شکر پڑیوں کی پہاڑیوں اور جنگلات کی طرف موڑ دیا اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا مگر سوشل میڈیا پر ہمارے ہی وطن عزیر کے کچھ پاکستانی اسکو کرتب کے دوران مرنا کہ کر شہادت میں ناپ تول کرتے اور پاک فضائیہ کا مزاق اڑاتے دکھائی دیئے افسوسناک بات تو یہ ہے کہ شہید پائلٹ ونگ کمانڈر نعمان اکرم تو شہادت کا جام نوش فرما کر جنت میں چلے گئے مگر اس سال 23 مارچ کی پریڈ سمیت دیگر تقریبات بھی کورونا وائرس کی وجہ سے کینسل کر دی گئیں۔

اب بھی وقت ہے ایک قوم ہو جاؤ ملک پر مشکل وقت ہے کورونا وائرس کی وبا کا آغاز چین سے ہوکر پورے یورپ،امریکہ سمیت جسطرح پوری دنیا میں پھیلا اور پاکستان بھی اس وبا کی زد میں آنے سے نہ بچ سکا ہے اللہ کا واسطہ ہے انسان دشمن لوگوں کے چھوڑے گئے فتنوں سے دور رہیں اور انسانیت کا فرض ادا کیجئے۔کچھ لوگ کورونا وائرس کو مزاق سمجھ کر غیر سنجیدگی کا شکار دکھائی دے رہے ہیں اور رنگ برنگے جھوٹے سچے پیغامات واٹس اپ کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے میں مصروف ہیں۔ایسے میں بے حسی کا عالم کہ اسپرے کے بہانے کرائم کی وارداتیں کی جا رہی ہیں اناج مہنگا کرنے والے مافیا کے ساتھ ہی ماسک مہنگا کرنے والے لوگ بھی اپنا کاروبار برے وقت کا فائدہ اٹھا کر چمکا رہے ہیں۔

وفاقی حکومت کا کردار اس آفت میں غیر سنجیدہ ہے جبکہ سندھ حکومت اپنی گزشتہ کوتاہیوں کا کفارہ کورونا وائرس کی کیمپین کے ذریعے کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اور اس سے بچاؤ اور حفاظت کے اقدامات کے لحاظ سے خراج تحسین کی مستحق ہے کراچی کی مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیمیں بھی اس مشکل گھڑی میں متاثرین کی مدد کرتے ہوئے اور امدادی اشیاء تقسیم کرتے ہوئے ہر جگہ دکھائی دیے رہی ہیں کراچی کی عوام کا جذبہ بھی قابل تعریف ہے۔پنجاب میں جہاں ینگ ڈاکٹرز نے کام چھوڑا وہاں پاک آرمی کی خواتین ڈاکٹرز نے ذمہ داری نبھائی اور ہر مشکل وقت کی طرح آج بھی پورے پاکستان میں پاک فوج اس مشکل گھڑی میں ساتھ کھڑی ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ فوج کا کام صرف سرحدیں سنبھالنا ہے وہ آکر دیکھیں کہ پاکستانی فوج نے ہمیشہ سرحدوں کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کی بھی حفاظت کی یے پاک فوج کے جوانوں کو پوری پاکستانی قوم کا سلام ایک طرف فوجی جوان میدان میں اترے ہیں وہاں ان ڈاکٹرز اور نرسوں کو بھی ۔سلام جو انسانیت کی خدمت میں اپنے گھروں سے دور ہیں۔ پورا ملک کورونا وائرس کی وجہ سے پریشان ہے

کراچی کے شہریوں کے حوصلے دیکھنے والے ہیں جو رضاکارانہ طور پر بھوک سے تڑپتے لوگوں کی مدد کرنے میں مصروف ہیں۔پاکستانی قوم کو اس مشکل وقت میں اب سچے پاکستانی بننے کی ضرورت ہے اب وقت آگیا ہے کہ ایک قوم بنا جائے اور اپنے اطراف کا خیال رکھا جائے کسی غریب مزدور کا بچہ بھوکا نہ سوئے۔جس پاکستانی قوم نے زلزلے،سیلاب ،دہشت گردی سمیت نہ جانے کتنی مصیبتوں کا سامنا مل کر کیا مجھے امید ہے تمام پاکستانی مل کر اس مشکل وقت سے بھی نکل جائیں گے اور کورونا سے بہادری سے جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔اللہ نے تمام امت مسلمہ کو سجدے میں گر کر گناہوں کی توبہ کرنے اور استغفار کا موقع دیا ہے کراچی سمیت پورا پاکستان لاک ڈاؤن ہے جو بچے اسکول کی چھٹی کرنے کیلئے روتے تھے وہ اب اسکول کے دوستوں کی یاد میں تڑپتے ہوئے اور اسکول جانے کیلئے روتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تمام علماء کی جانب سے روزانہ رات دس بجے گھروں کی چھتوں اور مساجد میں روزانہ اذانوں کا سلسلہ کورونا وائرس کی اس وبا سے چھٹکارے کیلئے شروع کیا گیا ہے جبکہ گھروں میں مختلف قرآنی وظائف پڑھے جا رہے ہیں کورونا وائرس نے انسانیت کو زندہ کر دیا ہے اور اللہ سے ٹوٹے رابطے کو ایک بار پھر جوڑ دیا ہے اب بھی وقت ہے۔

فیصلہ کر لیں کہ رنگ و نسل کے فرق کی بنیاد پر کسی سے نفرت کی شدت اتنی نہیں بڑھائیں گے کہ اسکو کسی بھی طرح کا نقصان پہنچے۔جب ہمارا اللہ ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والا ہے تو وہ ہمیں ہماری برداشت سے زیادہ آزمائش بھی نہیں دے گا مگر یہ اسکا جلال ہے پوری دنیا کو صرف یہ بتانے کیلئے کہ انسان کتنی بھی ترقی کر لے مگر اللہ کے آگے بے بس ہے آج کوئی امیر علاج کیلئے ملک چھوڑ کر نہیں بھاگ سکتا۔اٹھو مومنو کہ سجدہ ریز ہو جاؤ اس پاک پروردگار کہ سامنے جس نے کورونا جیسی وبا اتار کر ایک بار پھر انسان کو اسکے اندر کی اس انسانیت کو بیدار کرنے کا موقع دیا جو انسان کہیں بھول چکا تھا۔علامہ اقبال کی شاعری میں پوشیدہ گہرائی "مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ” کو سمجھ کر اذان کی گونج سے اپنی التجا اللہ تک پہنچا !دو اور سجدے میں جا کر اپنے رب کو منالو

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔