جنگ، جھوٹ اور پی ٹی ایم

چوہدری اُسامہ سعید


یہ بیان کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے، ایک گمراہ کن بیان ہے۔ صرف جائز ہی جائز ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے کبھی کبھی انسان نفرت اور تعصب کے باعث اتنا اندھا ہوتا ہے کہ جائز اور ناجائز کے فرق کو بھول جاتا ہے۔
وطن عزیز میں یہ چلن عام ہے۔ کوئی حادثہ ہو، کوئی سانحہ ہو، بغیر سوچے سمجھے الزامات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے۔ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح سیاست میں بھی یہی روش، البتہ اگر آئین پاکستان کو نشانہ بنایا جائے، اور ریاستی اداروں پر بلاجواز تنقید کی جائے، تو معاملہ متنازع ہوجاتا ہے۔ پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے معاملے میں کچھ ایسا ہی ہوا۔
اس جماعت کو میسر آنے والی حیران مقبولیت کو تو شاید کسی طرح ہضم کر لیا جائے، مگر اس کا ریاست مخالف بیانیہ ناقابل قبول ہے۔ اور جب اس میں غلط بیانی شامل ہوجائے، تو معاملہ مزید تلخ ہوجاتا ہے۔
پی ٹی ایم کی قیادت کرنے والے منظور پشتین کو ابتدائی تلخ بیانات کے باوجود نہ صرف دیگر سیاسی جماعتوں، بلکہ ریاست پاکستان نے بھی گنجایش دی، البتہ جلد ہی ان کی سرگرمیوں کا رخ بدل گیا۔
افواج پاکستان اور ریاست کے خلاف ایسے الزامات کی بھرمار ہوگی، جو حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف تھے، کچھ ٹویٹ تو انھیں خود بھی ڈیلیٹ کرنے پڑے۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ کبھی منظور پشتین نے اگست ۲۰۰۹ کی کسی تصویر کو فاٹا کے آئی ڈی پیز کی تصویر ٹھہرایا، کبھی افغانستان کے تباہ حال اسکول کو فاٹا کے نظام تعلیمی کی بدحالی کا مظہر بنا کر پیش کیا، یہاں تک کہ طالبان کے ہاتھوں تباہ ہونے والے وزیرستان کے مکانات کا الزام بھی پاک فوج پر تھوپنے کا پروپیگنڈا کیا۔
بزرگ کہتے ہیں، غلطی وہ، جو ایک بار ہو، یہاں تو حقائق کا مسخ کرنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ یہ سراسر پروپیگنڈا ہے۔
پاکستان مخالف تحریروں اور تقریروں کے ناختم ہونے والے اس سلسلے میں ان دہشت گردوں کی بھی حمایت کی گئی، جو پاکستان میں ہزاروں مظلوم افراد کے قتل کی وجہ بنے۔
کچھ عرصے قبل پی ٹی ایم کے لیڈر محسن داوڑ نے وزیرِ خارجہ سے خط لکھ کر شکوہ کیا تھا کہ امریکی نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے درمیان اعلیٰ سطح کی ملاقات کیوں ہوئی؟ حالاں کہ دنیا جانتی کہ پاک فوج اس خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کر رہی ہے۔
البتہ خود محسن داوڑ بغیر کسی پاکستانی سفارت کار کے افغان افواج اور انٹیلی جینس سے ملاقات کرچکے ہیں۔ بھارت اور افغان انٹیلی جینس کے گٹھ جوڑ کا بھانڈا تو افغان طالبان نے پھوڑ دیا، ایسے میں محسن داوڑ کی ان ملاقاتوں پر سنجیدہ سوال اٹھتا ہے؟
جنگ زدہ علاقوں میں پاک فوج نے اپنی قربانیوں سے امن قائم کیا، اور وہیں جنم لینے والے یہ سیاسی جماعت فوج کے خلاف محاذ کھولے بیٹھی ہے۔ کیا وہ ان دشمن ممالک کا آلہ کار بن گئی ہے، جنھیں پاکستان کا امن کھٹکتا ہے؟
پی ٹی ایم کے رہنما سعید عالم محسود بھی اس روش پر چل رہے ہِیں۔ کچھ عرصے قبل انھوں نے یہ دعوی کیا تھا کہ انھیں قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ بعد میں انھوں نے ان ہی دھمکیوں کو افواج پاکستان اور ریاست کے خلاف زہر اگلے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔
پریشان کن امر یہ ہے کہ یہ صاحب ماضی میں مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کرنے والوں کی حمایت کر چکے ہیں، جس کی ویڈیوز موجود ہیں۔ ریاست کو بھی انھوں نے متعدد بار دہشت گرد قرار دیا، حالاں کہ دہشت گرد کون ہے، اور کن کے خلاف فوج اور عوام نے قربانیاں دیں، سب کو اس کا علم ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ صاحب اپنی تقاریر میں یہ بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ پی ٹی ایم کے افراد جذباتی اور انتہائی نا مناسب باتیں کرتے ہیں، ناقابلِ تردید حقائق پر بہت کم بات ہوتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں یہ سعید مسعود پاکستان کے آئین کو بھی نہیں مانتے، جس کا یہ خود برملا اعتراف کرتے ہیں۔
ایک جانب ریاستی ادارے ہیں، جنھوں نے دہشت گردی جیسے ناسور کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی اور دوسرے طرف وہ طبقہ اور افراد، جنھوں نے امن قائم ہونے کے بعد ایک نیا محاذ کھول لیا۔
سوال یہ ہے کہ ان علاقوں کا امن کہیں ناگوار گزر رہا ہے؟ کون ہے، جسے یہ امن کھل رہا ہے؟
اس سوال میں تمام جواب چھپے ہوئے ہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔