بحرانوں میں قوم کو متحد ہونا چاہیے

چوہدری اُسامہ سعید

جب سے کورونا کی وبا پاکستان میں عام ہوئی ہے تب سے تین طبقے پاکستان میں سامنے آئے ہیں۔
پہلا طبقہ وہ جو فرنٹ لائین پر آکر کورونا کے خلاف لڑ رہا ہے جس میں ڈاکٹر، نرسنگ اسٹاف، فوج، رینجرز، پولیس اور مختلف این جی اوز کو چلانے والے یا انفرادی طور پر پاکستان کے غریبوں کی مدد کرنے والے وغیرہ شامل ہیں۔

دوسرا طبقہ، عام عوام ہیں، جس نے کبھی اس طرح کی صورتِ حال کا سامنا نہیں کیا۔ یہ کنفیوژ بھی ہے، پریشان بھی اور مالی تنگی کا شکار بھی۔ یہ کورونا سے ڈرتے بھی ہیں اور اپنے پیاروں کی بھوک کا خوف بھی انہیں دن رات ستاتا ہے۔

تیسرا طبقہ، وہ کی بورڈ کے جہادی ہیں جن کے اپنے پیٹ بھرے ہوئے ہیں، جو رات بھر فلمیں دیکھتے ہیں، دن میں کھاتے، پیتے اور سوتے رہتے ہیں۔ انہیں نہ حکومت کی پریشانی سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی عوام کی فکر ہے۔انہیں کورونا وائرس کے پھیلنے اور نہ پھیلنے سے بھی کوئی سروکار نہیں۔

تیسرا طبقہ اس صورتِ حال میں پاکستان کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس طبقے کی خاص بات یہ ہے کہ انہیں باقائدہ سے اس صورتِ حال میں پینک پھیلانے کے لیے پیسے دیے جاتے ہیں، پاکستان دشمن ممالک انہیں فنڈز دے کر پاکستان کے خلا ف زہر افشانی کرنے کا باقائدہ ٹاسک دیتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پورا طبقہ اس میں شامل ہے لیکن چند لوگ باقائدہ منظم تحریکی شکل میں پاکستان کے خلاف مہم چلا رہے ہیں اور باقی بیچارے نادانی میں جھوٹ کو سچ سمجھ کر ان کے نا چاہتے ہوئے بھی معاون و مددگار بن رہے ہیں۔

ففتھ جنریشن وار نام ہی اسی چیز کا ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے ٹارگٹ کو حاصل کرو۔ غلط پروپیگنڈے کو اتنا پھیلاوُ کہ وہ سچ لگنے لگے۔ کورونا کے آتے ہی حکومت کے خلاف ایک طبقہ صف آراء ہوگیا اور انہیں لعن طعن کرنے لگا کہ یہاں کورونا پھیل رہا ہے اور وفاقی حکومت کوئی اقدام نہیں کر رہی، سخت لاک ڈاوُن نہیں کر رہی جبکہ وزیرِ اعظم پاکستان نے پہلے ہی دن سے اسے سنجیدہ لیا ہے اور لاک ڈاوُن کے ساتھ غریبوں کا خیال کرتے ہوئے انہیں کام کی اجازت بھی دی ہے۔

اب جب کورونا زیادہ پھیل رہا ہے تو حکومت لاک ڈاوُن میں سختی کر رہی ہے جو کہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور پورے پاکستان کے لیے بہتر بھی ہے لیکن وہی طبقہ جو پہلے تنقید کر رہا تھا وہ اس اقدام پر پھر تنقید کر رہا ہے کہ غریب مارا جائے گا، وہ کہاں سے دو وقت کی روٹی کھائے گا۔ حکومت کی پالیسی پر تنقید کرتے وقت یہ بلکل نہیں سوچتے کہ یہ اکیلے حکومت کا مسئلہ نہیں اور نہ ہی یہ اکیلے حکومت اس سے نمٹ سکتی ہے۔

جیسے خوشیاں قومی ہوتی ہیں، مل بانٹ کر تہوار منائے جاتے ہیں اسی طرح بحران اور وبائیں بھی قومی ہوتے ہیں۔ ان مسائل کا حل بھی مل کر نکالا جاتا ہے، ا س صورتِ حال میں رنگ، نسل، قوم، فرقے اور مذہب سب کو خیر آباد کرکے ایک قوم کی طرح سوچنا پڑتا ہے۔ ایک قوم بن کر لڑنا پڑتا ہے اور ایک قوم بن کر ہی فتح حاصل کی جا سکتی ہے۔

حکومت چاہے پیپلز پارٹی کی ہو، ن لیگ کی ہو یا تحریک انصاف کی ہو، وبائیں سیاسی نہیں ہوتی۔ وبائیں کسی ایک جماعت سے منسلک نہیں ہوتی۔ یہ ہم سب کا مسئلہ ہے۔ ملک رہے گا تو زبانیں بھی رہیں گی، قومیں بھی، نسلیں بھی اور سیاسی جماعتیں بھی۔ ہم سب کو اس خطرناک صورتِ حال میں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے اور حکومت کے ہر فیصلے کو قومی مفاد کا فیصلہ سمجھ کر اُس پر عمل کرنا چاہیے۔ اسی میں عوام کی بھلائی ہے اور اسی میں ملک کی بہتری ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔