تعلیم اب ایک کاروبار
اویس حمید خان
لغت کے اعتبا رسے دیکھا جائے تو درسگاہ وہ جگہ ہے جہاں تعلیم دی جاتی ہے خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی,انسان کی پوری زندگی سیکھنے کے عمل میں گزرتی ہے ایک بچہ ہوش سنبھالنے سے لے کر ابد تک سیکھتا رہتا ہے زندگی کا ہر موڑ اسےکچھ نہ کچھ سبق دے رہا ہوتا ہے ۔ اگر درسی علوم کی بات کی جائے تو روزانہ جو سبق دیا جاتا ہے اس میں سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے تعلیم ہی انسان کو جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ مگر اس شخص کی مرضی ہے وہ اپنی زندگی کی ضروریات کو کس طریقے سے پورا کرے۔کونسے راستے کی طرف اپنا قدم بڑھائے یہ بات تو طے ہے کہ ہر شخص کو رزق اللہ عطا کرتا ہے مگر وسیلہ انسان خود بناتا یے ۔ جس کے زریعے وہ دو وقت کی روٹی عزت سے کھا سکے ۔ اس کے بر عکس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جہاں مختلف مقامات پر علم کے حوالے سے کئی مشہور اقول کچھ اس طرح ہیں۔
"علم حاصل کرو خواہ تمھیں چین جانا پڑے اور ایک اور جگہ پر علم کے بارے میں کہا گیا ہے ۔” علم حاصل کروں ماں کی گود سے قبر تک” ۔ اس سے اک بات تو پختہ ہے کہ کوئی بھی شخص زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ہو وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ سیکھ رہا ہوتا ہے ۔ جیتیا وہی ہے جو زندگی کا سبق اچھے سے سمجھ لیتا ہے.مگر حالات اس کے بلکل برعکس ہیں معاشرہ جس ڈگر پر گامزن ہے وہاں بچوں کی تعلیم و تربیت سے زیادہ اس بات پر توجہ دی جاتی ہے کہ وہ کسی ایسے اسکول میں تعلیم حاصل کرے جہاں فیس زیادہ ہو جہاں تربیت پر توجہ دی جائے نا جائے لیکن بس وہ اسکول معاشرے میں اعلٰی نام سے مشہور ہو۔
یہی وجہ ہے کہ ایک ہی علاقے میں چھوٹے چھوٹے کئی اسکول نمودار ہونا شروع ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے آس پاس کے لوگوں کو نزدیک ہونے کا فائدہ ہوتا ہے وہی اس کی تعلیم کا معیار کم ہونے پر کوئی برا محسوس نہیں ہوکرتا جس کی وجہ سے محلے میں ایسے اسکولوں کی تعداد بڑھ جاتی اور تعلیم کا معیار گر جاتا یے لوگوں کا کاروبار تو چل جاتا ہے مگر معاشرہ ترقی کی راہ میں پیچھے رہ جاتا ہے اور لوگوں کا کاروبار عروج کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔اس کی وجہ سے ملک میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر علامہ اقبال ، سر سید احمد خان ، جیسے عظیم لیڈروں کا جنم لینا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن نظر آنا شروع ہو جاتا ہے ۔ جبکہ معاشرہ کسی ایسے کام کی روک تھام کی کوشش نہ کرے جس سے لوگوں کو نقصان ہو تو وہ معاشرہ بھی اس گناہ میں برابر کا شریک ہو تا ہے۔ اور جب کسی کی زندگی کا مقصد تعلیم نہیں صرف نوکری ہو جاتی ہے تو پھر معاشرے میں نو کر ہی پیدا ہوا کرتے ہیں اچھےانسان نہیں۔ اگر ایک چھوٹے بچے کی بات کی جائےتو کم عمری میں ہی اتنا وزنی بستہ اٹھانے پر مجبور ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے کم عمری ہی میں بیماریاں جنم لینے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے ۔کیونکہ جب کسی شخص پر اس کی ہمت سے زیادہ کام دے دیا جاے یا اس پر زیادہ بوجھ ڈال دیا جاےء تو منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ ہم سب ایک زمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دے سکیں۔ جہاں بہت سے عام شہری یا اس ملک کے باشندے جدید دور کی ٹیکنالوجی سے مستفید ہیں وہی الیکڑرونک گیجڈ "اسمارٹ فون” نے لوگوں کی زندگیوں میں اتنی آسانیاں پیدا کی ہیں وہی ہم سب شہری اور محب وطن اسی فون کی زریعے سے ایوان بالا تک یہ سب کچھ پہنچا سکتے ہیں اور ان سے اس بارے میں پوچھ سکتے ہیں کیونکہ ان سب کو اسی کام کے لیے قلمدان دیا گیا ہے ۔اگر ذمہ دار شہری پوچھنے سے گھبرائے گا تو پھر اسی طرح یہ تعلیم سے بھی کنارہ کشی ہو جاےء گی ۔کیونکہ "ہر فرد کے ہاتھ میں ہے عوام کی تقدیر” اور "ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ”