ذاتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بلند ہے ذاتِ خدا کے بعد
خون چاہے کسی عام شہری کا بہے یا سرکاری اہلکار کا، نقصان توپاکستان کا ہے۔کیونکہ ریاست ماں ہوتی ہے اور ماں کیلئے سب برابر ہیں۔
پاکستا ن میں ایک طویل عرصے بعد امن و سکون کی فضا قائم ہوئی تھی مگر حکومت کی نااہلی اور عقل سے عاری فیصلوں کی وجہ سے ایک بار پھر ملک میں وہی فضا قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جس بھیانک دور سے یہ ملک برسوں پہلے گزر کر آیا تھا۔ فرق یہ ہے کہ اُس وقت ملک کے مختلف علاقوں میں شدت پسند گروہ قابض تھے جووطن عزیزکی بقا و سلامتی کے دشمن تھے۔اْن کا جب جی چاہتا تھا وہ کہیں بھی کسی بھی وقت اللہ اکبر کی صدا لگا کر اللہ کے مظلوم بندوں کو دن دیہاڑے دھماکوں سے اڑا دیا کرتے تھے۔ اْن کے زیر اثر علاقوں میں اپنے قوانین اور اپنی حکومت تھی، جب جی چاہتا تھا سرِ راہ لوگوں کے گلے کاٹ کر پھینک دیا کرتے تھے۔ جب ملک بھر میں خودکش دھماکوں اور اہم مقامات پر ٹارگٹڈ حملوں کی وجہ سے بدامنی کی فضا قائم ہوگئی تو ریاست نے ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے انہیں اپنے ہی بھٹکے ہوئے یا ناراض لوگ سمجھ کرپہلے مذاکرات کی دعوت دی تاکہ افہام و تفہیم سے معاملات حل کرلیے جائیں۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جن کے ہاتھ لاکھوں مظلوم اور معصوم لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے جو دن دیہاڑے حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے تھے اور جو ملک دشمن عناصر کے اسلحے اور فنڈنگ پر پلتے ہوئے اپنے ہی ملک کی عوام کے دشمن اور فوج کے خلاف برسرِ پیکار تھے۔ ریاست نے انہیں بھی بات چیت سے معاملات حل کرنے کا موقع دیا مگر جب انہوں نے سرکشی اختیار کیے رکھی تو پھر انکے خلاف اعلانِ جنگ کیا گیا اور پاک سرزمین سے ان عناصر کا صفایا کردیا گیا۔
آج بھی ملک میں ایک مرتبہ پھر بدامنی کی فضا قائم ہوچکی ہے۔فرانس میں گزشتہ کئی سالوں سے وقفے وقفے سے گستاخانہ خاکے بناکر دنیا بھرمیں بسنے والے پونے دو ارب مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے۔گزشتہ سال اسی طرح کی ایک گستاخی کاارتکاب کیا گیاتو فرانسیسی حکومت نے اس کی مذمت کے بجائے اس کی حمایت کی جس کے بعد امت مسلمہ میں مزید غم و غصہ پیداہوگیا۔پاکستان میں بھی اس کے خلاف شہر شہر احتجاجی مظاہرے جاری تھے جسے ختم کرانے کیلئے حکو متِ پاکستان نے اس معاملے کو قومی اسمبلی میں اٹھانے اور فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے ایک معاہدے کے ذریعے یقین دہانی کرائی تھی تاکہ فرانس سے تمام سفارتی تعلقات منقطع کرکے دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ تحفظ ِناموس رسالت ﷺ ہم مسلمانوں کے ایمان کا معاملہ ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔جس پر حکومت کی جانب سے خاموشی اختیار کیے رکھنے کے بعد اب دوبارہ اس معاہدے کی پاسداری کا مطالبہ کرنے پر ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تو ناجانے اپنے کس دشمن کی بات مان کرحکومت نے افہام و تفہیم سے مسئلہ سلجھانے کے بجائے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور طاقت کا رستہ اپنایا۔چونکہ مظاہرین کے مطالبات بالکل جائز تھے اور حکومت کا اخلاقی فرض بھی تھا کہ اگر معاہدہ کیا ہے تو اسے پوراکرے۔مگر حکومت کے غلط فیصلوں اور طاقت کے استعمال کا خمیازہ عام عوام کوبھی بھگتنا پڑا۔چاہے وہ پولیس کی ہوں یا عوام کی، جو جانیں ضائع ہوئیں،جن املاک کو نقصان پہنچاجو، کاروبار متاثر ہوئے یہ سب ملک کا ہی تو نقصان ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے ہوش کے ناخن لینے کے بجائے ایک اور عجیب کارنامہ یہ سرانجام دیا کہ میڈیا پر سنسرشپ اور ملک بھر میں انٹرنیٹ، موبائل سروس اور سوشل میڈیا کو بند کردیاگیا۔جس کے باعث نہ تو لوگ درست حالات و واقعات سے باخبر ہوسکتے ہیں مزید یہ کہ انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند کرکے گھر میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی پریشان کردیا گیا۔
ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے میرے دل میں ایک سوال اٹھتا ہے مگر اب یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ پہلا جہاں قانون ہاتھ میں لینے کو حکومتی رٹ کو چیلنج کرنا کہا جاتا تھا، حالات شاید بدل چکے ہیں۔ اب جدید دور ہے اور موجودہ حالات جس نہج پر کھڑے ہیں یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ایسے معاملات میں سوال کرنا بھی حکومتی رٹ کو چیلنج کرتا ہے اور جب میڈیا پرہی سنسر شپ عائد ہو تو سوالات کون کرے؟ وزیراعظم صاحب!آپ ایک سچے عاشق رسول ﷺ ہیں، میرے دل سے آپ کیلئے اس دن بے پناہ دعائیں نکلی تھی جس دن آپ نے نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں دنیا کو مخاطب کر کے کہاتھاکہ ُ ُ اگر دنیا ہولو کاسٹ کے اوپر بات نہیں کرنے دیتی تو پھر اس کا یہ دوہرا معیار کیوں ہے، وہ ایک ارب تیس کروڑ سے زائد مسلمانوں کی محبت اور جان و مال اور اولاد سے زیادہ عزیز رسول اکرمﷺکی توہین کی کیوں اجازت دیتی ہے ‘‘۔ مگرآپ کے وزراء کا متکبرانہ لہجہ اور انکے فیصلوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات مجھے آپ کی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور کر رہے ہیں۔آپ کے وزرا ء آرام سے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے اجلاس کریں گے،پریس کانفرنسیں کریں گے مگر میں کیا کروں میں اُن پولیس والے کی وفات پر بہت دکھی ہوں کہ جو صبح گھر سے سحری کرکے نکلے تھے مگر افطاری میں انکے لاشے گھر پہنچے۔ میرا دل ان نوجوانوں کیلئے بھی تڑپ رہا کہ جو بھارتی یا اسرائیلی نہیں بلکہ اپنی ہی حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے روزے کی حالت میں جانیں قربان کرچکے ہیں۔
میں اپنے وطن سے حب الوطنی کا پیشگی اعلان کرتے ہوئے اسی ملک کی محبت میں سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اگر تو اس سے حکومتی رٹ چیلنج نہ ہو اور مجھ پر بھی دہشتگردی کی کوئی دفعہ نہ لگتی ہوتو حکومت بتائے کہ حکومتِ پاکستان نے یہ معاہدہ کیا ہی کیوں تھا کہ جسے پورا کرنا ممکن نہ تھا؟اب یہ کہا جارہا ہے کچھ سفارتی آداب ہیں ایسا کرنے سے ہم دنیا میں تنہا ہوجائیں گے۔چلیں مان لیا یہ ٹھیک ہے، یہ جو لوگ باہر ہیں یہ سفارتکاری کے آداب نہیں جانتے۔مگر جناب یہ اس ریاست کے بچے ہیں، یہ آپ ہی کے شہری ہیں۔ان پر طاقت آزمانے کے بجائے ان پر دستِ شفقت رکھیں،ان سے بات کریں،اس معاملے پر علمائے کرام اور دینی حلقوں کو اعتماد میں لے کرمشاورت سے ایک متفقہ لائحہ عمل بناکر اس مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کریں۔کیونکہ یہ کسی شخص، جماعت، فرقے یا مسلک کا معاملہ نہیں بلکہ تمام امت مسلمہ کے ایمان کا تقاضہ ہے اور ریاست ِمدینہ بنانے کے دعویداروں کوتو اس معاملے میں امت مسلمہ کیلئے قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔
خاص کر ایسے وقت میں کہ جب مصر، لیبیا،عراق،لبنان اور شام وغیرہ جیسے کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جہاں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت انارکی پیدا کی گئی اور ان ممالک میں انتشار پھیلا کر اپنے مقاصد حاصل کئے گئے۔کم از کم یہ جانتے ہوئے بھی کہ ملک میں قائم امن و امان ملک دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا، حکومت کی جانب سے طاقت کے استعمال کا فیصلہ عقل سے عاری فیصلہ تھا۔اگر تو احتجاج کرنا گناہ تھا تو اسی حکومتی جماعت نے احتجاجی سیاست کی وجہ سے ہی نام پیدا کیا،سول نافرمانی کی تحریکیں چلائیں۔ اگر اُس وقت احتجاج کرنا جمہوری عمل اور عوام کا حق تھا تو اب جائز مطالبات لے کر احتجاج کرنے والوں پر گولیاں چلانے کا کیا جواز بنتا ہے؟ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انہی مظاہروں کی آڑ میں کچھ شرپسندعناصر نے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی، انہیں قانون اپنی گرفت میں لے سکتا تھا اور لیا جانا بھی چاہئے مگر اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اس جماعت پر ہی پابندی لگا دی گئی۔میرا یہاں بھی ایک سوال ہے کہ اگر یہی حل ہے تو کراچی کے میں جلاؤ گھیراؤ، بھتہ خوری،خونریزی، ٹارگٹ کلنگ، چائنہ کٹنگ اور بیرونی فنڈنگ کے ذریعے شہر کے امن کو تباہ کرنے میں ملوث جماعتوں کاتو سب کو علم بھی ہے اور شواہد بھی مگر وہ تو حکومت کے اتحادی بنے بیٹھے ہیں۔ بینظیر بھٹو شہید کی وفات کے بعد اس دن ملک بھر میں جو خون ریزی ہوئی،ٹرینوں اور گاڑیوں کو جلادیا گیا، ملک کو اربوں کا نقصان ہوا تھا۔اس پر بھی کوئی جماعت کالعدم ہوئی نا ہی دہشتگردی کی دفعات کے تحت کوئی کاروائی ہوئی۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب ریاست لاکھوں معصوم لوگوں کے قاتلوں اور ملک دشمنوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے سے پہلے انہیں مذاکرات کی دعوت دے سکتی ہے تو اپنے ہی کیے گئے وعدے کی پاسداری کا مطالبہ کرنے والے شہریوں سے اپنی انا اور ہٹ دھرمی کو پس پشت ڈال کر ملک کو بدامنی کی طرف دھکیلنے سے کیوں نہیں بچا لیتی۔حالیہ صورتحال میں حکومت کے غلط فیصلوں نے جس طرح ایک مرتبہ پھر عوام کے محافظوں کو عوام کے مقابل لاکھڑا کیا ہے،یہ حکومتی بے حسی اور نااہلی کا ثبوت ہے۔اس طرح کی حرکتیں صرف اور صرف دشمن کو اپنے مذموم عزائم کو پورا کرنے کی راہ فراہم کرتی ہیں۔ حکومت کو چاہئے ابھی بھی وقت ہے کہ وہ علمائے کرام کو اعتماد میں لے کرمذاکرات کی طرف جائے، دیگر مسلم ممالک سے بھی اس معاملے پر بات چیت کرے اور اقوام متحدہ میں قانون سازی ہو تاکہ کوئی گستاخ تمام آسمانی مذاہب،تمام آسمانی کتب،تمام انبیاء ؑ خصوصاً سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺکی ناموس کی توہین نہ کر سکے۔