نوجوان نسل اور ڈپریشن۔۔۔ مضر اثرات و حل
تحریر:محمد انس صدیقی
تنہائی میں اکثر انسان بہت کچھ سوچتا ہے، لیکن اس کو کسی کے سامنے بیان نہیں کر پاتا، لیکن میرے استاد نے مجھے یہ سکھایا ہے جب تمہارے پاس کوئی بات کرنے والا نہ ہو تو کاپی اور قلم سے لکھ کر گفتگو کیا کرو، اپنی سوچوں کو قلم بند کیا کرو، اس تناظر میں مجھے آج ہمارے معاشرے کے ایک سنگین پہلو پر قلم کشائی کا موقع ملا۔
محترم قارئین، مدعا یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل دماغی طور پر بہت زیادہ کمزور دکھائی دیتی ہے، اگر نوجوانوں کا معائنہ کیا جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر 4 میں سے 1 نوجوان ڈپریشن، ناامیدی، دماغی بیماریوں اور مختلف جسمانی بیماریوں کا شکار ہے، اس کی بہت سی وجوہ ہیں، جس میں سرفہرست زندگی کے کسی بھی معاملے میں ناکامی ہے، کیونکہ ناکامی کو ہمارے معاشرے میں اس قدر ناگوار تصور کیا جاتا ہے کہ معاذ اللّٰه یہ شخص کسی سنگین گناہ کا ارتکاب کرچکا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے تو اس نوجوان کے ڈپریشن اور متعدد بیماریوں میں مبتلا ہونے کا سبب بنتی ہے اور پھر اسے خودکشی جیسے حرام فعل تک لے جاتی ہے۔
اگر دیکھا جائے معاشرے سے پہلے اس دباؤ کا آغاز گھر والوں کی جانب سے ہوتا ہے، جب لڑکا/ لڑکی دورِ تعلیم میں ہوتے ہیں، ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ اچھے نمبروں سے پاس ہو ورنہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی، والدین یہ بات بالکل نہیں سمجھتے کہ ہر بچے کا دماغ ایک جیسا نہیں ہوتا اور ہر بچہ حد درجے ذہین بھی نہیں ہوتا، اسی لیے اس کو حوصلہ دینے اور اس کا ساتھ دینے کے بجائے اسے مارا پیٹا جاتا ہے، اسے لعن طعن کا نشانہ بنایا جاتا ہے، دوسروں کے بچوں کی تعریف کرکے بات بات پر نیچا دکھایا جاتا ہے اور آخرکار وہ نوجوان کسی قبیح فعل کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔ اسی طرح دوسرے مرحلے میں جب کوئی نوجوان لڑکا کمانا شروع کرتا ہے تو تب بھی گھر والوں کی توقعات ہوتی ہیں، زیادہ سے زیادہ کماکر لائے، لیکن اس میں بھی کم آمدن کے سبب اس کو زبانی زد و کوب کیا جاتا ہے۔ پھر تیسرا مرحلہ ازدواجی معاملات کا ہوتا ہے، اگر اس میں کوئی کسر رہ جائے تو دونوں جانب سے صبر کرنے یا تسلی سے معاملہ نمٹانے کے بجائے اس کو اتنا بڑھاوا دیا جاتا ہے کہ نکاح جیسا عظیم رشتہ طلاق جیسی لعنت پر دم توڑ دیتا ہے اور پھر ان سب گھریلو مسئلوں میں سونے پر سہاگہ یہ کہ جو رہی سہی کسر باقی رہ جاتی ہے، وہ رشتہ دار اور ہمارے معاشرے کے لوگ پوری کردیتے ہیں اور ان ہی سب وجوہ کے سبب آج ہمارے نوجوانوں کی خودکُشیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ والدین کو سمجھنا چاہیے کہ ہر بچہ پوزیشن حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی تمام بچے ایک جیسی دماغی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں، آپ کا بچہ جیسا بھی ہے آپ کو اپنانا چاہیے، آپ اس کا ساتھ دیں، اس کے حوصلے کو بلند کرکے اس کی کارکردگی کو بہتر بناسکتے ہیں، تاکہ وہ کسی قسم کے دباؤ اور بیماری کا شکار ہوکر غلط قدم نہ اٹھائے، اسی طرح نوکری کے معاملے میں بھی دولت کو اہمیت دینے سے بہتر یہ ہے کہ نوجوانوں کو کم مگر حلال رزق کی ترغیب دی جائے اور ان پر کم عمری میں بے جا ذمے داریوں کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔ تیسری اور آخری بات ازدواجی معاملات میں میرا اپنے تمام قارئین کو دوستانہ مشورہ ہے کہ آپ لڑکے ہو یا لڑکی زوجین کے مابین جو بھی بات ہو وہ کمرے کی چاردیواری سے باہر نہ جائے، آپ ایک دوسرے کو وقت دیں، بیٹھیں اور اس کا کوئی مناسب حل تلاش کریں، تاکہ نکاح جیسا عظیم رشتہ قائم رہے اور دونوں کسی بھی طرح کے گناہ سے محفوظ رہیں۔
اس تحریر کا مقصد قارئین اور خصوصاً نوجوانوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ ناکامی زندگی کا حصہ ہے، جس کے سبب ہم زندگی میں بہت سے سبق حاصل کرتے ہیں، سیکھتے ہیں، سنبھلتے ہیں، لوگوں کی پہچان کرتے ہیں۔ ناکامی سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس کو کامیابی میں بدلنے کے لیے کاوشوں کو اور تیز کردینا چاہیے اور یہ ہمارے والدین اور معاشرے کے ہر فرد کی ذمے داری ہے کہ ناکام شخص کو لعن طعن کرنے اور نیچا دکھانے کے بجائے اس کا ساتھ دیں، حوصلہ دیں تاکہ وہ ملک و قوم کے لیے کارآمد ثابت ہو۔
بقولِ شاعر!
گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ طِفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے