پیغامِ محرم کو سمجھنے کی ضرورت

شہریار شوکت

اسلام اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کا درس دیتا ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی پاکستان کو ایک ایسی اسلامی ریاست قرار دیا تھا جہاں ہر مذہب و مسلک کے لوگ اپنی عبادت گاہوں مساجد، مندروں، گردواروں اور گرجا گھروں وغیرہ میں جانے کے لئے آزاد ہوں۔

اگرچہ پڑوسی ملک ہندوستان اور بنگلا دیش میں ایسے حالات نہین، وہاں آئے دن مذہبی بنیادوں، ذاتوں اور برادریوں کے درمیان تصادم دیکھنے میں آتا ہے، لیکن پاکستان میں الحمداللہ ایسے حالات نہیں۔ آپ کو پاکستان کے ہر ضلع میں کم از کم ایک مندر ضرور ملے گا۔ اگر چھوٹا شہر ہے تو پھر بھی کہیں نہ کہیں آپکو مندر ضرور نظرآ ئے گا۔ اسی طرح آپ کو گرجا گھر اور گردوارے بھی نظرآئیں گے۔ ملک میں ذرا گھوم پھر کر دیکھ لیں، کرسمس پر مسلمان اور عیسائی خوشیاں بانٹتے نظر آئیں گے۔ میرا ایک ہندو دوست ہر سال دیوالی پر کیک بھیجتا ہے اور اہلسنت حضرات اہل تشیع کے جلوسوں میں پانی پلاتے بھی دکھا ئی دیں گے۔

دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں جہاں اس مذہب سے وابستہ لوگوں کیلئے اپنے مذہبی فرائض کی تکمیل کیلئے اہم ہیں، وہیں مسلمان یا دوسرے مذاہب کے لوگ وہاں کا دورہ کرتے ہیں، ان کی تاریخ جانتے ہیں اور ان کی خوشیوں میں شامل بھی ہوتے ہیں۔ یہ پاکستان کا اصل رنگ ہے۔ اسلام دیگر مذاہب کے لوگوں کی حفاظت کرنے انہیں مذہبی آزادی دینے کا نام ہے۔ افسوس کہ ملک میں ایک طبقہ ایک خاص ایجنڈے پر کام کررہا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو سڑکوں پر ہم جنس پرستی اور فحاشی کا درس دیتے نظر آتے ہیں اور اسے اپنا حق اور آزادی سمجھتے ہیں۔ افسوس اپنے میڈیا کے دوستوں پر جو ان افراد کو تجزیہ کار بنا کر اپنے پروگراموں میں بیٹھا دیتے ہیں اور یہ افراد دین سے متعلق اور فول کہتے ہیں۔

ایک جانب یہ لوگ ہیں دوسری جانب وہ ہیں جو محرم یا ربیع الاول کے آتے ہی بھائی کو بھائی سے لڑانے کی کوشش میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ان افراد کا تعلق کسی مسلک یا دین سے نہیں ہوتا۔ ان کا کام بس اپنی ریٹنگ اور ریٹ بڑھانا ہوتا ہے۔ مذہبی تفریق پھیلانے والے افراد اپنے مقصد میں کامیابی کیلئے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ فرقہ پرستی پھیلانے اور فسادات کو ہوا دینے کی کوشش کرنے والے بیرونی ایجنڈے پر عمل کرنے والے یہ افراد دیگر مذاہب یا مسالک کے مقدصات کی توہین کیسی جعلی آئی ڈی یا اپنی ہی آئی ڈی سے کرتے ہیں جس کے بعد اشتعال انگیزی جنم لیتی ہے اور ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ صورتحال ہر سال ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ آخر اس کا حل کیا ہے؟ کیا ملک میں انتشار پھیلانے والوں کو کھلی چھٹی دے دی جائے کہ یہ جو چاہیں کریں؟ ان افراد کوآخر ملک کا امن و امان خراب کرنے سے کیسے روکا جائے؟ بہت آسان سا حل ہے اس کا۔ سب سے پہلے جہاں موجودہ حکومت نصاب میں اسلامی مواد کا اضافہ کررہی ہے، جو کہ ایک احسن عمل ہے، وہیں اسکولوں کالجوں اور جامعات کو اس بات کا بھی پابند کیا جائے کہ اسلامیات کا مضمون پڑھانے کیلئے علما یا کم از کم اسلامیات میں ماسٹرز ڈگری ہولڈر کی خدمات لی جائیں۔ اسی طرح نصاب میں ایسے واقعات شامل کئے جائیں جن میں رسول اللہ ،خلفا راشدین اور صحابہ نے اقلیتوں کے تحفظ کا درس دیا ہو اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے ہوں۔ یہی اسلام کی روح ہے۔ کتب میں مختلف مسالک کے مقدصات کی آپس میں محبت کو بھی شامل کیا جائے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن چوں کہ نصاب میں ان کی کمی ہے لٰہذا عوام علمی کمی کا شکار ہیں۔ ساتھ ہی قانون پر عمل درآمد کو سخت بنانا ہوگا۔ ملک میں سائبر کرائم کا فعال نظام موجود ہے۔ کسی بھی پوسٹ سے اگر کسی قسم کا گستاخانہ مواد کسی بھی مذہب یا کسی بھی مسلک کے مقدسات سے متعلق شئیر کیا جاتا ہے تو اس آئی دی اور پوسٹ کو بلاک کیا جائے اور آئی ایڈریس کی مدد سے ایسا کرنے والے شر پسند عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے، کیوں کہ وہ افراد جن کا مقصد ہی انتشار ہے انہیں علم سے کچھ حاصل نہ ہوگا ان کے لئے سخت سزا ہی لازم ہے۔ حکومت کو اب اس معاملے کی جانب سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ پاکستان امن اور محبت کرنے والوں کا ملک ہے۔ اسلام کے نام پر بننے والا ملک کسی مذہبی انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

 

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔