اللہ پاک کے واسطے

نازیہ علی


ٹی وی چینل سے غیر مہذب پروگرام کو نشر کرنے والے لوگوں کو کورٹ میں بلایا جائے کہ ایک ایسے وقت میں جب اسکول، کا لجز، یونیورسٹیز بند ہیں۔ بچے ٹی وی دیکھنے پر مجبور ہیں۔ اس مجبوری میں انکی توجہ ٹک ٹاک کی طرف مائل ہوگی۔ میں کافی ایسے گھروں کو جانتی ہوں جو بہت پریشان ہیں کہ انکی بیٹیاں ماں باب سے لڑنے لگی ہیں کہ ہمیں اجازت دیں ہم غیر مہذب کپڑے پہن کر ٹک ٹاک بنائے۔ والدین اپنے بچوں کی اس تبدیلی سے بہت پریشان ہیں۔

ٹک ٹاکر کو اتنا پرموٹ کرنا، انکی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کرنا، نازیبا گفتگواور لباس، بنا دوپٹے کے لڑکیوں کو نہایت نامناسب الفاظ میں گفتگو کروانا اور اتنی اہمیت دینا کہ بس وہ پاکستان کا مستقبل ہیں۔ اب پاکستان کوصرف ٹک ٹاکر کی ہی ضرورت ہے۔ بس اب ڈاکٹر، انجینیر،ٹیچر یا اچھے قابل لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔۔بہت غلط ہے، اپنے چینل کی صرف ریٹینگ کے لیے ملک کی سالمیت داوُ پر لگانا، اچھا نہیں۔ اسکے نتایج بہت خطرناک ہونگے۔

چین کو جب اچھی لیڈر شپ ملی جس نے ایک نشہ کرنے والی قوم سے آج سپر پاور بنایا۔ انکے لیڈر ماوُ نے کہا تھا کہ آج سے ہم اپنے بچوں کو دنیا کا سب سے بہترین ہتھیار دینگے۔وہ ہے علم و تربیت۔ہمارا ہر ہر بچہ تعلیم یافتہ ہوگا اور اپنی روایات کو برقرار رکھے گا۔
پھر کیا ہوا چین آپکے سامنے ہے۔
ہم کہاں ہیں؟ اور آنے والا وقت اس ٹک ٹاک کی وجہ سے ہمیں کہاں لیے جائیگا۔ یہ آپ سب دیکھں گے میں ہسٹری کی طالب علم ہوں دن رات اس فکر میں ہوں کہ ہم کس منزل مقصود پر چل رہے ہیں؟؟؟

ہر لڑکی کی خواہش ہوگئ ہے کہ پڑھائی چھوڑے اور ٹک ٹاک بنائے تاکہ وہ آوارگی کی منزلیں طے کریں۔ ہم پورا پاکستان اسکی مذمت کرتا ہے۔
خدا کے لیے کچھ تو اپنے لوگوں سے پیار کریں۔کچھ چینلز تو صرف اپنے چینل کو نمبر ون کرنے کے لیے۔طالب علم سے علم کی پیاس چھین رہے ہیں۔ویسے ہی ہمارا تعلیمی نظام کونسا اچھا ہے۔مزید ٹی وی چینل کے گھٹیا شوز نے تباہ کردیا ہے۔
میں نے تو اپنے گھر سے کیبل ہی ہٹوادیا ہے۔کیونکہ ایسا لگتا ہے۔جیسے آنے والے وقت میں ہم ٹک ٹاکر سے ترقی کے خواب قوم۔کو دیکھاریے ہیں۔
وہاں ترقی ارطغل ڈرامہ بنا کر امت مسلمہ کو مضبوط کر رہے ہیں۔ ادھر ہم نجانے اپنی قوم سے کیا بدلہ لینا چاہ رہے ہے۔
کیا واقعی ہم مسلمان ہیں۔
ہمارے اینکر دوپٹہ پہننا بھول گی ہیں۔
ہماری ایکٹر شلوار قمیض دوپٹہ پہنا ایسے بھول گی ہیں جیسے ہم یورپین ملک ہوں۔یہ کونسا دین اسلام کو پرموٹ کیا جارہا ہے۔
میں بھی پڑھی لکھی خاتون ہوں جوب کرتی ہوں۔دنیا داری کے تمام کام میں حصہ لیتی ہوں ۔مگر اب ٹیلیویژن کو دیکھ کر دل رونے لگا ہے۔ان ڈراموں آور مورننگ شوز نے طلا ق کا نمبر بڑھا دیا ہے۔ہر وقت فیشن فیشن مے
خیر ٹی۔ وی چینل کو بہت نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
کیا ٹی وی چینل کی مینجنیٹ بیرونی اشا رے پر کام کر رہی ہے۔کیونکہ نوجوانوں سے اپنی تہذیب اور ثقافت و شرافت اور ادب و اداب چھیننا کوئ پاکستانی کیسے کر سکتا ہے۔
پیمرا کو تمام شوز دیکھ کر کوئ جلد از جلد ایکشن لینا چاہیے۔
چین یا یورپ سے کوئ انکا کلچر چھپنے تو وہ اسکو تباہ و برباد کردینگے۔
ہم مسلمان ایک ارب ستر کڑور کے قریب ہے مگر پوری دینا سے خوف زدہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے مذہب اور ثقافت پر کمپرومائس نہیں کرتے۔
ہر ملک آگے آگے ترقی،ٹیکنالوجی، کے منازل طے کررہا ہے اور ہمارا میڈیا ہمیں تیزی سے بے شر می بے حیای کی طرف لے جارہا ہے۔
یا اللہ ہم کب با شعور ہو نگے گے۔کب نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی سنت پر با تیں نہیں عمل کرینگے۔
جہاں تک یہ میرے الفاظ جاے وہاں یہ نازیبا شوز دیکھنا بند کریں۔ورنہ آپکی مرضی آپکے گھر کا ماحول کہاں لےجارہی ہے۔کیا گھر والوں کی کونسلینگ ہورہی ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔