دو روزہ چوتھے ادب فیسٹیول کا آغاز ہوگیا

کراچی: چوتھے ادب فیسٹیول کا باقاعدہ آغاز ہوگیا، جس میں ہر عمر کے لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ سیشنز کی اہمیت کے پیش نظر شرکاء ایک سیشن سے دوسرے سیشن میں انتہائی دلچسپی لیتے نظر آئے۔ فیسیٹول میں حبیب یونیورسٹی کے طلباء نے تمام سیشنز میں خصوصی شرکت کی، اس کے علاوہ فیسٹیول میں نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی نہایت جوش و خروش سے شریک ہوئی۔
ادب فیسٹیول کے صبح کے سیشن کا آغاز قومی ترانہ بجاکر کیا گیا، جس کے بعد ادب فیسٹیول کا ترانہ پیش کیا گیا جب کہ ادب فیسٹول کی بانی اور ڈائریکٹر امینہ سید اورڈائریکٹر اور بانی ادب فیسٹیول شمع عسکری نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ اس موقع پر زہرہ نگاہ، عامر رمضان کنٹری ڈائریکٹر برٹش کونسل، واصف رضوی صدر حبیب یونیورسٹی، ماریہ رحمٰن اور شیری رحمٰن نے خطاب کیا، بعدازاں طارق سکندر قیصر نے شرکاء سے اپنا کلیدی خطاب کیا۔
فیسٹیول کے پہلے دن ڈاکٹر تنویر انجم کو اردو کی خدمات پر ادب فیسٹیول/ انفاق فاﺅنڈیشن پرائز2022 سے نوازا گیا۔ اس موقع پر شیما کرمانی نے رقص پیش کیا۔
امینہ سید نے ادب فیسٹیول میں کیے جانے والے تعاون پر مرتضیٰ وہاب ایڈمنسٹریٹر کراچی، اقبال میمن کمشنر کراچی، کراچی برٹش کونسل، حبیب یونیورسٹی، لائٹ اسٹون پبلشرز، بی اے آر ڈی فاؤنڈیشن، انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ، بینک آف پنجاب، جنرل شپنگ ایجنسیز لمیٹڈ، گیٹز فارما، ایڈ لنکس، پاکستان انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل، بلال سنز، حبیب میٹرو پولیٹن بینک، فرئیر ہال کے منظور صاحب، اسٹار لنکس پی آر اینڈ ایونٹس، میٹروپولیٹن کمشنرافضل، ڈی آئی جی ایس ایس یو کراچی، ڈپٹی کمشنر ڈسٹرکٹ ساؤتھ، میونسپل کمشنر، ڈسٹرکٹ ساؤتھ، ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس، کراچی رینجرز، محترمہ سارہ امجد اسسٹنٹ کمشنر (ہیڈ کوارٹرز) کراچی، جنید اللہ خان، ڈی جی پارکس ڈاکٹر مقصود احمد اور سسٹر ایلزبتھ پرنسپل سینٹ جوزف کانونٹ اسکول کراچی کا شکریہ ادا کیا۔
اس موقع پر بات کرتے ہوئے امینہ سید نے کہا، اس سال ادب فیسٹیول کا موضوع ”موسمیاتی بحران“ ہے۔ ادب فیسٹیول ایک نیا سلک روٹ ہے، جس کے ذریعے ہماری روایات و ثقافت، ادب اور فنون لطیفہ ناصرف پورے پاکستان بلکہ بیرونی ممالک کے لوگوں کے دل بھی فتح کرسکتے ہیں۔ ادب فیسٹیول ہر خاص و عام کے لیے اور بغیر کسی معاوضے یا ٹکٹ کے منعقد کیا جارہا ہے، کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ اس فیسٹیول کی بدولت لوگ ایک دوسرے ادب سے محبت کریں اور اس سے لطف اندوز ہوں۔ ادب فیسٹیول کا تعلق کراچی اور ہماری کمیونٹی سے ہے، اسی لیے اس کا انعقاد ایک کھلی اور عوامی جگہ پر کیا جارہا ہے۔
برٹش کونسل کی ڈپٹی ڈائریکٹر ماریہ رحمٰن نے خطاب کرتے ہوئے کہا، ہم اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ اس وقت پاکستان موسمیاتی بحران کے بالکل دہانے پر ایستادہ ہے۔ موجودہ صورت حال میں ضروری ہے کہ ہماری نوجوان آبادی کا بڑا حصہ اس عالمی چیلنج سے نمٹنے کے حوالے سے طویل المدتی حل پیش کرنے کے لیے اپنا، اپنا کردار ادا کرے۔ ہم نے برٹش کونسل میںبطور خاص موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ کم نمائندگی پانے والوں کے مسائل کے حل کے لئے کوشاں ہیں۔مثال کے طور پر خواتین اور پسماندہ گروہوں کی موسمیاتی تحقیق میںشمولیت کو یقینی بنا کر انہیں مواقع فراہم کئے جاسکتے ہیں۔ فنون لطیفہ اور ثقافت کے ذریعے، ہم نوجوانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کرسکتے ہیں اور ہنگامی موسمیاتی صورتحال پر تخلیقی ردعمل پر تعاون کر سکتے ہیں۔ ادب فیسٹیول کا مقصد موسمیاتی ہنگامی صورتحال کے بارے میں بات چیت کو متحرک کرنا اور تبدیلی کی تبدیلی کو متاثر کرنا ہے۔
صدر حبیب یونیورسٹی واصف رضوی نے کہا، پاکستان جلد ہی انسانوں کے لیے ناقابل رہائش ہوجائے گا۔ انتہا پر پہنچے ہوئے موسمی واقعات، تباہ کن بارشیں، جان لیوا سیلاب، تباہ کن خشک سالی اور گرمی کی لہروں نے پاکستان میں رہنے والوں کے لیے ناقابل تصور تباہی کو ایک زندہ حقیقت بنادیا ہے۔ پاکستان میں تبدیلی کے ممکنہ طور پر خوراک کی حفاظت اور پانی کی کمی پر خوفناک اثرات مرتب ہوں گے۔ اس وجودی خطرے کے باوجود‘ پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بہت کم کام کیا ہے۔ حبیب یونیورسٹی ایک فکری طور پر متحرک ادارہ ہونے کے ناطے اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے کہ اس طرح کے وجودی خطرات کی شدت کو اجاگر کرتے ہوئے تنقیدی گفتگو کا آغاز کیا جائے۔حبیب یونیورسٹی کے فکری پروگرام کا مقصد معاشرے کو موجودہ بیانیہ سے ہٹ کر سوچنے اور متبادل امکانات کو فروغ دینا ہے۔چوتھے ادب فیسٹیول کا موضوع ”ماحولیاتی تبدیلی“ ہے جو ماحولیاتی نظام کے تحفظ کے لئے کام کرنے کے حبیب یونیورسٹی کے مشن کے عین مطابق ہے‘اس لئے ہمیں ادب فیسٹیول کے ساتھ اشتراک کرکے اپنا کردار ادا کرنے پر خوشی ہے۔
افتتاحی تقریب کے بعد فوزیہ من اللہ کے آرٹ ورکس اور 100 فٹ کی تنصیب پر مشتمل کام کو پیش کر کیا گیا جو مکمل طور پر کچرے کو دوبارہ استعمال کرکے بنایا گیا ہے۔
ادب فیسٹیول کے پہلے دن تقریباً 200 مقررین اور فنکاروں نے شرکت کی جن میں زہرہ نگاہ، شیری رحمٰن، شرمین عبید چنائے، مرتضیٰ وہاب، طارق سکندر قیصر، ڈاکٹر ارفع سیدہ زہرہ، اعتزاز احسن، عبداللہ حسین ہارون، مونی محسن، فوزیہ من اللہ، افتخار عارف، کشور ناہید، وسعت اللہ خان، یاسر لطیف ہمدانی، ظفر مسعود، فاطمہ حسن، افضل سید، ڈاکٹر تنویر انجم، حمید ہارون، ندیم ایف پراچہ، جاوید جبار، بینا شاہ، ضرار کھوڑو، ڈاکٹر عشرت حسین، نورالہدیٰ شاہ، امر سندھو، تیمور رحمٰن آف لال، ڈاکٹر ہما بقائی، زمبیل ڈرامیٹک ریڈنگز سمیت بہت سے معروف نام شامل ہیں۔
فوزیہ من اللہ کی دی لوسٹ لولابے آف مدر نیچر پومی آمنہ گوہر نے تیار کیا۔ اس موقع پر بہت سی کتابوں بشمول 1946 دی لاسٹ وار آف انڈیپنڈنس، ری رائل انڈین نیوی میوٹنی، مختصر کہانیوں اور ایم ایچ عسکری کی دوسری جنگ عظیم کی غیر مطبوعہ تصاویر کا مجموعہ وغیرہ کی رونمائی بھی کی گئی۔
فیسٹول میں بچوں کے لئے ایک الگ حصہ مخصوص کیا گیا، جہاں ان کو کہانیاں سنانے، موسیقی، پرفارمنس کے ذریعے پڑھنے کی طرف راغب کرنے کے ساتھ تیمور رحمان کے لال بینڈ کا کنسرٹ بھی شامل تھا۔
فیسٹیول میں پیرزادہ سلمان کی کتاب ”بٹ وین دی امپیریل اینڈ دی اٹرنل“ کی رونمائی ‘اے اسٹوری آف سروائیول: ری پلانٹنگ پاکستانز، مینگرووزطارق سکندر قیصر کی ملٹی میڈیا پریذنٹیشن، ”اس آدمی کی کمی“آصف فرخی کو خراج تحسین، محمدی بیگم کی یادداشت کا انگریزی ترجمہ: ”محمدی بیگم، ز میمور، اے لانگ وے فراہم حیدرآباد، ڈائری آف اے ینگ مسلم ویمن ان دی 1930برٹین، مونی محسن کی کتاب ”دی امپیکٹ ایبل انٹیگریٹی آف روبی آر“ کی لانچ ، حبیب یونیورسٹی کا جشن اردو، ”ورک ان پروگریس“ زیادہ تر ناول نگار اپنا زیادہ تر وقت کیسے گزارتے ہیں پر ناول نگاروں کے درمیان گفتگو، اعتزاز احسن کی کتاب ”دی انڈس ساگا اینڈ دی میکنگ آف پاکستان“ پر ڈاکٹر ہمابقائی کی مصنف کے ساتھ بات چیت، سینٹ جوزف کانونٹ اسکول کی پرفارمنس، فوزیہ سعید کی کتاب ٹیپسٹری، اسٹرینڈز آف ویمنز اسٹریگلس، موون ان ٹو دی ہسٹری آف پاکستان کی رونمائی، شمع عسکری کی تصنیف ابنِ سعید (ایم ایچ عسکری) کی اردو کتاب کا ترجمہ:ہیروشیما اینڈ ادر اسٹوریز کی رونمائی، وسعت اللہ خان کی سیلاب ڈائریاں، پر مصنف سے اخلاق احمد کی گفتگو، نفیسہ عطا حسین کی کتاب ”میرا پیغام محبت ہے“ پر گفتگو، پرمود کپور کی کتاب” 1946:دی لاسٹ وار آف انڈی پینڈنس -رائل انڈین نیوی میوٹنی “ کی لانچ، یاسر لطیف ہمدانی کی کتاب ”جناح: اے لائف“ کی رونمائی اور اسٹینڈ اپ کامیڈی شامل تھے۔ پہلے دن کا اختتام نتالیہ گل کی اسٹینڈ اپ کامیڈی، تھر سے تعلق رکھنے والی نرملا مگھانی کے گانوں اور غزلیں، تھر اور اسکیچز کے سیف سمیجو کے کنسرٹ سے ہوا۔
بچوں کے لیے تیمور رحمان کے لال بینڈ کے کنسرٹ کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ اس موقع پر رومانہ حسین اور فاطمہ حسن بھی سامعین کو مسحور کرنے کے لئے موجود تھیں۔
ادب فیسٹیول کتابوں، پڑھنے، مصنفین کو فروغ دینے، ڈائریوں، پیشکشوں، ڈرامائی پڑھنے، مباحثے، مزاح، موسیقی، گانا، آرٹ اور رقص کے ذریعے سامعین کو تفریح اور مشغول کرکے موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے نئے، اختراعی، تخلیقی انداز متعارف کرارہا ہے۔ ادب فیسٹیول کی جانب سے عوامی مقامات پر کراچی کی متنوع ثقافت کو منایا گیا۔
ادب فیسٹیول کی پبلک ریلیشننگ اسٹار لنکس پی آر اینڈ ایونٹس کی ذمے داری تھی۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔