عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کالعدم قرار دیدیا

اسلام آباد: عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کالعدم قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیس کا متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے  اسمبلی تحلیل کے اگلے دن سپریم کورٹ نے جاری بیان میں اپیل کا حق دینے کی پارلیمنٹ کی ترمیم اُڑا دی، عدالت عظمیٰ کے مطابق ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ سے متعلق کیس میں جسٹس منیب اختر نے اضافی نوٹ بھی تحریر کیا ہے۔

عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ پارلیمان کی قانون سازی کے اختیار سے تجاوز ہے، سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں لہٰذا اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کے تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹ ایکٹ کالعدم قرار دے دیا۔

جسٹس منیب اختر نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ پارلیمان کا قانون سازی اور سپریم کورٹ کے پاس رولز بنانے کے اختیارات برابر ہیں، سادہ قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز کو غیرموثر نہیں کیا جاسکتا، رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے۔

ریویو ایکٹ میں آرٹیکل 184 تھری کے مقدمات کے فیصلے کے خلاف متاثرہ فریق کو اپیل کا حق دیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر فیصلے کے لیے عدالت نے فریقین کو الیکٹرانک نوٹس بھجوائے تھے۔

خیال رہے کہ 19 جون کو چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل بینچ نے کیس کی 6 سماعتیں کرنے کے بعد فیصلہ  محفوظ کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعتیں کیں، درخواست گزاروں نے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کے خلاف درخواستیں دائر کی تھیں۔

جس پر اٹارنی جنرل نے درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کی تھی، درخواست گزار پی ٹی آئی نے اس قانون سازی کے لیے آئینی ترمیم لازم قرار دینے کا مدعا پیش کیا تھا۔

ایکٹ کے تحت آرٹیکل 184 تھری کے مقدمات کے فیصلے کے خلاف متاثرہ فریق کو اپیل کا حق دیا گیا تھا، اپیل سننے والے بینچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس سننے والے ججز سے زیادہ ہونا لازم ہے، تاہم پی ٹی آئی سمیت انفرادی حیثیت میں وکلاء نے اس ایکٹ کو چیلنج کیا تھا۔

پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد 26 مئی کو صدر مملکت نے ایکٹ پر دستخط کیے تھے، جس کے بعد سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کا اطلاق 29 مئی سے ہوا۔

سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کی 7 شقیں ہیں۔

شق 1کے تحت ایکٹ "سپریم کورٹ(ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز)ایکٹ 2023 کہلائے گا

شق 2 کے تحت سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار مفاد عامہ کےمقدمات کی نظر ثانی کےلیے بڑھایا گیا۔

شق 2 کے تحت مفاد عامہ کے مقدمات کی نظر ثانی کو اپیل کے طور پر سنا جائے گا۔

شق 3 کے مطابق نظرثانی کی سماعت پر بینچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس سے زیادہ ہوگی۔

شق 4 کے مطابق نظرثانی میں متاثرہ فریق سپریم کورٹ کا کوئی بھی وکیل کرسکے گا۔

شق 5 کے تحت ایکٹ کا اطلاق آرٹیکل 184، 3کے پچھلے تمام مقدمات پر ہوگا۔

شق 5 کے مطابق متاثرہ فریق ایکٹ کے اطلاق کے 60 دنوں میں اپیل دائر کر سکے گا

شق 7 کے مطابق ایکٹ کا اطلاق ملتے جلتے قانون، ضابطے، یا عدالتی نظیر کے باوجود ہر صورت ہوگا۔

عدالت عظمیٰ نے تمام فریقین کو سن کر دو ماہ قبل فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

 

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔