پاکستانی کرکٹ کمنٹیٹر عمر قریشی

کرکٹ کے میدانوں سے رواں تبصرے کرنے والی صفِ اول کی شخصیت پر خصوصی مضمون

آآصف جیلانی

پاکستان کی کرکٹ آج شکستوں کی تاریکی میں جس بے کسی کے عالم میں ہے، اسے دیکھ کر عمر قریشی یاد آتے ہیں۔ اتنا طویل عرصہ گزر گیا ہے کہ بہت کم لوگوں کو یہ یاد رہا ہوگا کہ پاکستان کے شروع کے زمانہ میں کراچی سے انگریزی کا ایک اخبار ٹائمز آف کراچی کے نام سے شائع ہوتا تھا۔

یہ زیڈ اے سلہری نے شروع کیا تھا۔ آرام باغ اور برنس روڈ کے درمیان پتلی پتلی گلیوں میں سے ایک گلی میں چند کمروں کے مکان سے یہ اخبار نکلتا تھا۔ ایڈیٹر اس کے عمر قریشی تھے جو اس زمانے میں امریکا کی جنوبی ریاست کیلیفورنیا کی یونیورسٹی سے تحصیل علم سے فارغ ہوکر تازہ تازہ پاکستان لوٹے تھے۔

یہ بات سن باون تریپن کی ہے۔ میں اس زمانہ میں امروز کراچی سے وابستہ تھا۔ میرے قریبی اور شفیق دوست مرحوم محمد اختر، ٹائمز آف کراچی میں رپورٹر تھے۔ میں جب بھی ان سے ملنے ٹائمز آف کراچی کے دفتر جاتا تو وہاں کراچی ایسے سیلے اور چپ چپے موسم میں ہر وقت بو ٹائی اور سوٹ میں ملبوس عمر قریشی کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ اب بھی امریکا میں رہ رہے ہوں اور ان پر ان مٹ پختہ مغربی چھاپ لگ چکی ہے۔ لیکن یہ محض اوپری رنگ تھا۔ اندر ان کے خالص مشرقی دل دھڑکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ان کو قریب سے نہیں جانتے تھے وہ انہیں ایک غصیلا دیسی صاحب اور نک چڑھا، مغرور شخص سمجھتے تھے۔

ٹائمز آف کراچی زیادہ دن نہ چل سکا، حالانکہ عمر قریشی کی ادارت میں یہ بڑا معیاری روز نامہ تھا اور ان کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی رکھنے والے نوجوان صحافی تھے جنہوں نے صحافت میں نئی جہتیں تراشی تھیں، لیکن سلہری صاحب کے اس زمانے میں سیاست میں بہت زیادہ الجھنے کی وجہ سے یہ اخبار جلد بند ہوگیا۔ عمر قریشی کے لئے یہ پہلا اور آخری تجربہ تھا۔ اس زمانہ میں کراچی میں دو دوست سماجی اور دانشور حلقوں میں تیزی سے ابھر رہے تھے اور بڑے مقبول تھے۔ عمر قریشی اپنے احباب میں عمو اور ذوالفقار علی بھٹو اپنے دوستوں میں زلفی کہلاتے تھے۔ عمو اور زلفی دونوں بمبئی میں اسکول میں ساتھ تھے اور پھر امریکا میں یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران بھی یک جا تھے اور پھر یہ دونوں ایک ساتھ ہی وطن لوٹے تھے لیکن انہوں نے الگ الگ شعبوں میں اپنی قسمت آزمائی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ چیف کورٹ میں وکالت شروع کی اور سن اٹھاون میں پہلے مارشل لاء کے دور میں فوج کی بیساکھی کے سہارے سیاست کے میدان میں اترے۔ عمر قریشی نے صحافت میں قسمت آزمائی اور ٹائمز آف کراچی کے بند ہونے کے بعد روزنامہ ڈان میں کرکٹ پر تبصرہ نگاری شروع کی۔

سن 1950 کے وسط میں جب ونود منکڈ کی کپتانی میں ہندوستان کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے پہلے دورے پر آئی تو جمشید مارکر کے ساتھ مل کر عمر قریشی نے کرکٹ کمنٹری کے میدان میں قدم رکھا اور ایسا نام پیدا کیا کہ وہ لوگ بھی جو انگریزی نہیں سمجھتے تھے ان کی کمنٹری بڑے شوق سے سنتے تھے اور ان کے نام کی مالا جپتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمر قریشی نے پاکستان میں کرکٹ کے شائقین کو بہت کچھ دیا ہے۔ شروع شروع میں تو انہیں کرکٹ کے کھیل کی پیچیدگیوں، باریکیوں اور اعدادوشمار کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا لیکن ان کا ذہن ایسا اکتسابی تھا کہ بہت جلد انہوں نے کرکٹ پر پورا عبور حاصل کر لیا تھا۔

سن 1960میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم پہلی مرتبہ ہندوستان کے دورہ پر گئی تھی۔ میں ان دنوں دلی میں تعینات تھا۔ مجھ سے کہا گیا کہ میں یہ دورہ کور کروں۔ پاکستان کی ٹیم کانپور میں کملا ریٹریٹ میں ٹہرائی گئی تھی۔ میں نے بھی یہیں ڈیرا ڈالا۔ کملا ریٹریٹ میں عمر قریشی اور میں ایک ہی کمرے میں ٹہرے تھے۔ اس وقت کرکٹ کے بارے میں ان کے علم اور جان کاری سے میں بہت متاثر ہوا اور اس سے میں نے بڑا فیض حاصل کیا۔ اس زمانہ میں انہوں نے اپنے خاندان کے بارے میں بڑی دلچسپ باتیں بتائیں۔عمر قریشی کے والد فوج کی میڈیکل سروس میں کرنل تھے۔ ان کا تعلق پنجاب سے تھا اور والدہ ان کی کشمیری تھیں۔ فوج کی ملازمت کی وجہ سے کرنل قریشی، ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تعینات رہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمر قریشی پیدا مری میں ہوئے لیکن بچپن انہوں نے پونا اور بمبئی میں گزارا۔ عمر قریشی کے آٹھ بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ ان کی ایک بھائی سن ستر کی دہائی میں لندن میں پاکستان ہائی کمیشن سے وابستہ تھے۔ ان کے صاحب زادے، حنیف قریشی نے برطانیہ میں انگریزی ادب میں بڑا نام پیدا کیا ہے۔ اور خود عمر قریشی کیا کم رہے۔ انہوں نے کرکٹ پر جو لکھا سو لکھا اور بہت لکھا لیکن اسی کے ساتھ انہوں نے پانچ کتابیں لکھی ہیں۔آخری کتاب ان کی، Once Upon A Time، سن دو ہزار میں شایع ہوئی تھی جس میں انہوں نے اپنے ماضی کے دریچوں کو وا کیا ہے اور برطانوی راج ، بمبئی میں قائد اعظم محمد علی جناح ، ذوالفقار علی بھٹو ، دیویکا رانی ، دوسری عالم گیر جنگ ، تقسیم اور کراچی کے اوائلی دور کے بارے میں لکھا ہے۔ سن ساٹھ کے عشرے میں ایئر مارشل نور خان انہیں پی آئی اے میں لائے اور انہوں نے پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بڑا نمایاں کام انجام دیا تھا ، صحافت سے تعلق اور صحافیوں سے قریبی روابط نے ان کی بے حد مدد کی۔ جنرل ضیاء کے دور میں وہ بھٹو کے دوست ہونے کی وجہ سے انتقام کا شکار بنے اور پی آئی اے سے برطرف کر دئے گئے۔ بہر حال، عمر قریشی کا نام پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ سے اتنا گھتا ہوا ہے کہ عبد الحفیظ کاردار ، فضل محمود ، محمد حنیف ، ماجد خان اور عمران خان ایسے کھلاڑیوں کے ساتھ ان کا ذکر لازمی ہے اور ان کے بغیر پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ ان کے بہت سے مداح تو انہیں پاکستان کی کرکٹ کا اعلی کپتان کہتے ہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔