ہائی پروفائل کیسز کے تفتیشی افسران کے تبادلوں پر پابندی عائد
اسلام آباد: عدالت عظمیٰ نے ہائی پروفائل کیسز کی تفتیش کرنے والے افسران کے تبادلوں پر پابندی عائد کردی۔ عدالت نے چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ تاحکم ثانی ہائی پروفائل کیسز کے تفتیشی افسران تبدیل نہ کیے جائیں۔
سپریم کورٹ میں حکومتی عہدیداروں کی جانب سے مداخلت کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا، کیا آپ نے پیپر بک پڑھا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی میں نے پڑھا ہے، پیپر بک میں عدالت کے معزز جج کی جانب سے مداخلت کے بارے میں ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وجوہ صفحہ نمبر 2 پر موجود ہیں، وہ پڑھیں، یہ نوٹس لینے کی وجوہ ہیں، پیپر بک نمبر 2 میں ڈاکٹر رضوان کی دل کا دورہ پڑنے سے موت کا ذکر ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لاہور میں ایک کیس کے دوران ایف آئی اے کے استغاثہ کو پیش نہ ہونے کی ہدایت کی گئی، ہم آپ سے گارنٹی چاہتے ہیں کہ استغاثہ کا ادارہ مکمل آزاد ہونا چاہیے، ڈاکٹر رضوان قابل افسر تھے، انہیں کیوں ہٹایا گیا؟ تمام اقدامات بظاہر کریمنل جسٹس سسٹم میں مداخلت کے مترادف ہیں، اٹارنی جنرل صاحب آپ اس ساری صورت حال کا جائزہ لیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ای سی ایل سے 4 ہزار سے زائد افراد کے نام نکالے گئے، نام نکالنے کا طریقہ کار کیا تھا؟ اس وقت ہم کوئی رائے نہیں دے رہے، ہم رول آف لا کی حفاظت کرنے والے ہیں، امید کرتا ہوں وفاقی حکومت پولیس کے ساتھ تعاون کرے گی، یہاں پوائنٹ اسکور کرنے کے لیے اکٹھے نہیں ہوئے، عدالت فیصلہ کرتے ہوئے کبھی نہیں گھبرائی، سماعت کا مقصد کسی کو خفا یا شرمندہ کرنا نہیں، یہ کارروائی قانون کی حکمرانی کو بچانے کے لیے ہے۔